[یُفْسِدُ فِیْھَا]’’ فیھا‘‘کے معنی ابھی اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اور کلمہ’’ یُفْسِدُ‘‘ کا مادہ ’’ ف س د ‘‘ اور وزن ’’ یُفْعِلُ‘‘ہے، یعنی یہ لفظ اس مادہ سے بابِ افعال کے فعل مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی کے علاوہ اس سے بابِ افعال (اَفْسد یُفْسد)کے معنی وغیرہ کی بھی البقرۃ:۱۱ یعنی ۱:۹:۲(۳)میں وضاحت کی جا چکی ہے۔ بعض نے کلمہ ’’یُفْسِدُ‘‘کا ترجمہ (یہاں) فعل مستقبل کے ساتھ کیا ہے یعنی ’’ وہ فساد برپا کرے گا، پھیلائے گا ‘‘کی صورت میں کیونکہ اس میں اولادِ آدم کے مستقبل کے اعمال کا ذکر ہے۔ اکثر مترجمین نے اصل فعل مضارع کے ساتھ ہی ترجمہ کر دیا ہے جس میں حال اور مستقبل دونوں کا مفہوم موجود ہے یعنی ’’ جو فساد کرے ، پھیلائے، خرابیاں کرے ‘‘ کی صورت میں ــ۔جن حضرات نے اسم موصول ’’من‘‘ کا ترجمہ بصورت جمع کیا ان کو یہاں فعل بصیغہ واحد (یفسد) کا ترجمہ بھی بصورت جمع ’’کریں گے، پھیلائیں گے‘‘کر نا پڑا ـ جو بہرحال اصل لفظ سے انحراف ہے۔
۱:۲۱:۲(۵) [وَیَسْفِکُ] ’’وَ‘‘(اَوْر)کے بعد فعل ’’یَسْفِکُ‘‘ہے جس کا مادہ ’’س ف ک‘‘ اور وزن ’’یَفْعِلُ‘‘ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’سفَکَ…. یسْفِک سَفْکًا(باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’….. (کو) بہانا‘‘ــ یعنی ’’ کسی سیال اور مائع چیز کو گرانا یا انڈیلنا‘‘۔ یہ فعل ہمیشہ متعدی اورمفعول بنفسہ کے ساتھ آتا ہے اس کا مفعول عموماً’’ الماء‘‘(پانی) ’’الد معَ‘‘(آنسو) اور ’’ا لدم‘‘ (خون)ہوتا ہے یعنی ’’پانی بہانا،آنسو بہانا ا ور خون بہانا ‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور زیادہ تر یہ فعل ’’ خون بہانا یا خون ریزی کر نا ‘‘کے لیے مختص ہے۔
- ’’ یَسْفِکُ‘‘اس فعل ثلاثی مجرد سے فعل مضارع معروف کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے ، اس کا ترجمہ حال اور مستقبل دونوں کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ تاہم مذکورہ بالا فعل ’’ یُفسِد‘‘کی طرح یہاں بھی بعض مترجمین نے تو مستقبل کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’(خون) بہائے گا، (خونریزیا ں)کرے گا ،‘‘ کی صورت میں ـ بعض نے ’’ مَنْ ‘‘(جو اوپر گزرا ہے)کے معنی میں جمع کا مفہوم مد نظر رکھتے ہوئے ( کہ قصہ ایک شخص کا نہیں اولادِ آدم کا ہے)جمع اور مستقبل کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’( خونریزیاں)کریں گے‘‘ تاہم مترجمین کی اکثریت نے فعل مضارع اور صیغۂ واحد کے ساتھ ہی ترجمہ کیا یعنی ’’خوں بہائے ، خونریزیاں کرے، کشت و خون کرتا پھرے‘‘ـ خیال رہے کہ اس فعل ( یسفک) کے ترجمہ ( بہانا) میں خون، خوں ریزی اور کشت و خون‘‘کا اضافہ اگلے لفظ ’’الدِمَائَ‘‘کے ساتھ ملانے سے ہوسکتاہے۔ جس کی وضاحت ابھی آگے آرہی ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد (سفک یسفک)کے صرف دو صیغے دو ہی جگہ آئے ہیں۔ ایک یہاں ( البقرہ:۳۰) اور دوسرے ( البقرہ: ۸۴)میں۔
۱:۲۱:۲(۶) [الدِّمَآءَ] کا مادہ ’’ د م ی‘‘(اور بقول بعض ’’د م و‘‘)اور وزن ( لام تعریف نکال کر)’’فِعالٌ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’دِمایٌ‘‘تھی مگر الف ممدودہ کے بعدآنے والی ’’یا ء‘‘ یا ’’ واو‘‘ کو ہمزہ میں بدل کر لکھا اور بولا جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’ دمِیَ یَدْمٰی دَمًی‘‘(در اصل دمِیَ یَدْمَیُ دَمْیًا) با ب سمِع سے آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں:’’خون نکل آنا‘‘(اگرچہ بہا نہ ہو)۔ پھر اس میں’’ بہنے اور جاری ہونے ‘‘کا مفہوم بھی آجاتا ہے۔ اس فعل کا فاعل عموماً ’’ الجَرْحُ‘‘(زخم)ہوتا ہے یا کوئی عضو۔ مثلاً کہتے ہیں ’’ دمِیَ الَجرْحُ‘‘( زخم سے خون نکل آیا) یا دَمِیَتِ الاِصْبَع‘‘(انگلی سے خون نکل آیا) ایسے زخم کو ’’ جرحُ دمٍ ‘‘(دراصل دَمیٍ)کہتے ہیں۔ عربی زبان میں یہ مادہ مختلف معنی کے لیے مزید فیہ کے مختلف ابواب سے بھی استعمال ہوتا ہے ــــتاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل ( نہ مجرد نہ مزید فیہ) کہیں استعمال نہیں ہوا۔