اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

لیکن بہت سے اہل علم - بلکہ اہلِ دل ـــ کی رائے یہ ہے کہ چاہے لفظ ’’اِلٰہ‘‘ کا اشتقاق ان تمام مادوں  ـ یا ان میں سے کسی ایک مادہ   سے درست بھی ثابت کر دیا جائے جب بھی اسمِ جلالت (اللّٰہ) سرے سے اسم مشتق ہے ہی نہیں۔ یہ ’’ اَلْا ِلٰہ‘‘ سے بھی نہیں بنا۔ [1] بلکہ دراصل اسی طرح ذاتِ باری تعالیٰ کے لئے وضع کیا گیا ہے جس طرح دوسری بہت سی چیزوں کے نام ہیں ـ مثلاً تمام اسماء جامدہ جو کسی ذات پر دلالت کرتے ہیں ـ اور ہر ہر لفظ کا مشتق ہونا لازمی بھی نہیں ہوتا۔ اور یہاں تو لفظ ’’اِلٰـہ‘‘ کے لئے بِناءِ اشتقاق بنائے گئے بیشتر معنوں کا ذات باری تعالٰی پر اطلاق بھی محلِ نظر ہے۔

 

۱:۱:۱: (۳)    [الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ] ان دو لفظوں کی لغوی اصل اور معنوں کے بارے میں مفسرین اور ائم   ۂِ لُغت و نحو کے اقوال کا خلاصہ حسب ذیل ہے:۔

 (۱)          ان کامادہ ’’ر ح م‘‘ ہے۔ پہلے لفظ کا وزن ’’ فَعْلَانُ‘‘ (غیر منصرف) ہے اور دوسرے کا وزن ’’فَعِیْلٌ‘‘ ہے۔ یعنی دونوں اسم مشتق ہیں۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد  رَحِم یَرْحَمُ رَحمۃً (سمع سے) ہمیشہ متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے یعنی ’’رَحِمَہٗ‘‘ کہتے ہیں ـ ’’ رَحِمَ عَلَیْہ‘‘ کہنا بالکل غلط ہے ــ البتہ اردو میں اس کا ترجمہ ’’…پر رحم کرنا یا مہر بانی کرنا‘‘ کیا جائے گا۔ یہ ’’پر‘‘ اردو محاورے کی بنا پر آتا ہے۔ مگر عربی میں مفعول بنفسہٖ یعنی صلہ کے بغیر آتا ہے۔

(۲)    یہ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں مگر ’’فَعلانُ‘‘ میں بمقابلہِ ء’’فَعِیْل‘‘ زیادہ مبالغہ ہوتا ہے۔ اس لئے ’’رحمٰن‘‘ کے معنی ’’بے حد رحمت والا‘‘ اور  ’’رحیم‘‘ کے معنی ’’بہت رحمت والا‘‘ ہوں گے۔

(۳)    ’’رحمٰن‘‘ تو صیغ       ۂِ مبالغہ ہے مگر ’’رحیم‘‘ صفتِ مشبّہ ہے یعنی ’’رحمٰن‘‘ کثرتِ رحمت پر اور ’’رحیم‘‘ دوامِ رحمت پر دلالت کرتا ہے۔ اس طرح ’’ رحمٰن ‘‘کے معنی ’’بکثرت رحمت والا‘‘ اور ’’رحیم‘‘ کے معنی’’ ہمیشہ رحمت والا‘‘ ہوں گے۔ اسی چیز کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان اسماء کا اردو ترجمہ یوں کیا جاتا ہےـــ

        الرحمٰن= بڑا مہر بان۔ نہایت مہربان۔ بے حد مہر بان۔ نہایت رحم کرنے والا۔

        الرحیم= مہربان۔ بڑا رحم والا۔ نہایت رحم والا۔ بار بار رحم کرنے والا۔

(۴)    ’’الرحمٰن‘‘ اسم صفت کے طور پر بھی صرف ’’ اللّٰہ‘‘ کے لئے استعمال ہوتا ہے، جبکہ ’’رحیم‘‘ غیر اللہ کے لئے بھی استعمال ہوسکتا ہے اور (قرآن کریم میں) ہوا ہےـــ ’’الرحمن‘‘ ہمیشہ معرفہ (معرّف باللّام) آتا ہے۔ (ماسوائے نِدا کے یعنی جب منادٰی ہو) مگر ’’الرحیم‘‘  معرفہ نکرہ دونوں طرح آتا ہے۔

________________________

 [1] اس لئے کہ قرآنِ کریم میں تو کہیں : ’’اَلْاِلٰہ‘‘ استعمال نہیں ہوا۔ جاہلی اشعار میں اس کا استعمال ممکن ہے کسی خاص ’’معبودِ باطل‘‘ کے لئے ہی ہوا ہو جو شاعر کا معھودِ ذہنی ہو کیونکہ لفظ ’’الہ‘‘ کا اطلاق ’’معبودِ برحق‘‘ اور ’’معبودِ باطل‘‘ ہر دو پر ہوتا ہے۔ اس لئے اس کی جمع ’’ آلھۃ‘‘ آتی ہے جبکہ

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں