اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

[ذٰلِک بما] یہ  ’’ذلک‘‘(وہ. . . ) ـــ’’بِ‘‘(بسبب+بوجہ) ’’ما‘‘ (وہ جو کہ) کا مرکب ہے، اس کا لفظی ترجمہ بنتا ہے۔ ’’یہ اس وجہ سے (ہوا) جو کہ‘‘ جس کا عام بامحاورہ ترجمہ ’’یہ اس لیے (ہوا کہ‘‘ ہے۔

۱:۳۹:۲ (۱۸)     [عَصَوْا] کا مادہ ’’ع ص ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے اصلی شکل ’’عَصَیُوْا‘‘ تھی جس میں واو الجمع سے ماقبل والا حرف علت (جو یہاں ’’ی‘‘ ہے) کتابت اور تلفظ دونوں سے ساقط کردیا جاتا ہے اور اب اس کے ماقبل (جو یہاں ’’ص‘‘ ہے) کی حرکتِ  فتحہ (ــــــَــــ)برقرا رہتی ہےــــ  یوں یہ لفظ ’’عَصَوا‘‘ رہ جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’عَصَی. . .  یَعْصِیْ عِصْیَانًا ومَعْصِیَۃً‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہی: ’’. . . کی نافرمانی کرنا ، . . . کا حکم نہ ماننا ‘‘یعنی ’’اس پر عمل نہ کرنا‘‘ یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہ آتا ہے جیسے ’’ فَعَصٰى فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ ‘‘ (المزمل:۱۶) یعنی ’’فرعون نے رسول کی نافرمانی کی‘‘۔ بعض دفعہ اس کا مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے مثلاً زیر مطالعہ آیت میں بھی ’’عَصَوْا‘‘ کے ساتھ یہ نہیں بتایا گیا کہ کس کی نافرمانی کی تھی؟ بہرحال اس فعل کا مفعول عموماً اللہ رسولؐ یا ان کے احکام ہی ہوتے ہیں جو کبھی مذکور ہوتے ہیں کبھی غیر مذکور مگر مفہوم ہوتے ہیں۔ یہ فعل مجرد (عصَی یعصِی) سے مختلف صیغہ ہائے فعل قرآن کریم میں ۲۷ جگہ آئے ہیں۔ اور اس سے مصدر اور اسم صفت کے کچھ صیغے چار جگہ آئے ہیں۔ اس مادہ سے مزید فیہ کا کوئی فعل قرآن کریم میں نہیں آیا۔ اگرچہ عام عربی میں بعض ابواب (مزید فیہ) مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

  • زیر مطالعہ لفظ ’’عصَوا‘‘ فعل مجرد سے فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ جس کا ترجمہ ’’انہوں نے نافرمانی کی‘‘ ہے۔ اور اس کو سابقہ کلمات (ذلک بما) کے ساتھ ملانے سے پوری عبارت (ذلک بما عصوا) کا ترجمہ بنتا ہے۔ ’’یہ اس لیے (ہوا) کہ انہوں نے نافرمانی کی‘‘ اور اگر ’’مَا‘‘ کو مصدریہ سمجھیں تو مصدر مؤوّل کے ساتھ مفہوم ہوگا۔ ’’بعصیانھم‘‘ یعنی ’’(یہ بات) ان کی نافرمانی کی وجہ سے (ہوئی)‘‘ اردو کے اکثر مترجمین نے تو اس کا ترجمہ فعل ماضی سے، نافرمانی کی، اطاعت نہ کی، نافرمانی کیے جاتے تھے‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ چند ایک نے ’’ما‘‘ مصدریہ کے ساتھ بھی ترجمہ کیا ہے یعنی ’’بدلہ تھا ان کی نافرمانیوں کا‘‘ کی شکل میں۔ جب کہ بعض نے جملہ اسمیہ کی طرح ’’بے حکم تھے، نافرمان تھے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے جو اصل لفظ (نص) سے بالکل ہٹ کر ہے۔ اسے بلحاظ مفہوم ہی درست کہا جاسکتا ہے۔

۱:۳۹:۲ (۱۹)     [وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ] ’’و‘‘ اور ’’کَانُوْا‘‘ کئی دفعہ گزر چکے ہیں۔ ضرورت محسوس ہوتو ’’وَ‘‘کے لیے[۱:۴:۱ (۳)] اور[۱:۷:۲ (۱)]اور ’’کانوا‘‘ کے لیے البقرہ:۱۰ [۱:۸:۲ (۱۰)]دیکھ لیجئے۔ یہاں ابتدائی ’’وَّ‘‘ کے مشدد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر ’’وَ‘‘ سے پہلے ’’واو الجمع مفتوح ما قبلَھا‘‘ (وہ واو الجمع جس سے پہلے حرف مفتوح ہو) تو ’’مد ّ ‘‘کے پیدا نہ ہو جانے کی وجہ سے دونوں ’’واؤ  مدغم ہوکر پڑھی جاتی ہیں، اگر واو الجمع کا ماقبل مضموم ہو (جیسے آمنُوا وَعملُوا میں ہے) تو ’’مدّ‘‘پیدا ہوجانے کی وجہ سے ادغام نہیں ہوتا۔ اس واو الجمع مفتوح ماقبلھا کے بصورت وصل پڑھنے کے کچھ اور قاعدے بھی ہیں جو آگے آئیں گے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں