اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

’’البرّ‘‘ کے اسی مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’بھلائی۔ نیک کام، نیک کام کرنا اور نیکی کرنا‘‘سے کیا گیا ہے۔ اس طرح مندرجہ بالا عبارت ’’ اتامرون الناس بالبر‘‘(جس کے ابتدائی حصے ’’اتامرون الناس‘‘ پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’کیا تم حکم دیتے ہو لوگوں کو نیکی کا‘‘ بعض حضرات نے آگے آنے والی عبارت ’’و تنسون انفسکم‘‘(جس پر ابھی بات ہوگی) کوملحوظ رکھتے ہوئے یہاں ’’الناس‘‘ کا ترجمہ صرف ’’لوگوں کو‘‘کی بجائے ’’دوسرے لوگوں کو‘‘سے کیا ہے۔ اور یہ اس لحاظ سے درست کہا جاسکتا ہے (بلحاظ محاورہ) کہ اس کے بعد ’’اپنے آپ کو بھول جانے‘‘ کا ذکر ہے بعض مترجمین  نے ’’حکم دینا‘‘کی بجائے ’’کوکہنا‘‘سے ترجمہ کیا ہے یعنی ’’کیا تم کہتے لوگوں کو نیک کام کرنے کو؟‘‘لوگوں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو‘‘اردو محاورے کے مطابق اس موقع پر ’’کہنا، حکم دینا ہی کا مفہوم رکھتا ہے۔ بعض حضرات نے ’’لوگوں کو کہتے ہو نیکی کرو‘‘سے بھی ترجمہ کیا ہے۔ یہ بھی صرف محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے درست کہا جاسکتا ہے ورنہ اصلی الفاظ سے بہت دور ہے۔ (خصوصاً ’’البرّ‘‘ کا ترجمہ ’’نیکی کرو‘‘کرنا)

۱:۲۹:۲(۷)     [وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ] کی ابتدائی ’’وَ‘‘ عاطفہ بھی ہوسکتی ہے اور حالیہ بھی ۔ یعنی اس کا ترجمہ یہاں ’’اور‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور ’’حالانکہ یا جب کہ‘‘ بھی۔

’’تَنْسَوْنَ‘‘کا مادہ ’’ن س ی‘‘اور وزن اصلی ’’تَفْعَلُوْنَ‘‘ ہے اس کی اصلی شکل ’’تَنْسَیُوْنَ‘‘تھی۔ جس میں ناقص کے ’’واو الجمع والے قاعدے‘‘کے تحت لام کلمہ (ی) ساقط ہوجاتی ہے اور ماقبل کی فتحہ (ـــــَــــ) برقرار رہتی ہے اس طرح یہ لفظ ’’تَنْسَوْنَ‘‘رہ جاتا ہے۔ [ناقص میں واو الجمع کے اس قاعدے کی کئی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں مثلاً ’ ’ لَقُوا‘‘ ۱:۱۱:۲(۱)‘  ’’[  خَلَوْا‘‘۱:۱۱:۲(۲) میں]

  • اس مادہ سے فعل مجرد ’’نسِیَ …یَنْسَی نَسْیًا و نِسْیانًا (سمع سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’…کو بھول جانا… کو یاد نہ کرنا یا اسے یاد نہ رکھنا‘‘(یعنی یہ ’’حَفِظ‘‘کی ضد کے طور پر استعمال ہوتا ہے)۔ اور اس سے اس میں ’’عمدًا ‘‘ بھلا دینا یا ترک کردینا‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ یعنی اس فعل کے حقیقی معنی تو ’’بھول جانا‘‘ ہی ہیں مگر (کبھی) اس کے مجازی معنی کسی چیز کو ’’عمداً ترک کردینا‘‘، اس کی پروا نہ کرنا‘‘ یا ’’قابل اعتناء نہ سمجھنا‘‘ وغیرہ ہوتے ہیں۔ اور یہ مجازی معنی سیاقِ عبارت میں کسی قرینہ (اشارہ)سے متعین ہوتے ہیں۔ مثلاً اگرکسی جگہ ’’بھول جانے‘‘ پر کسی سزا یا مذمت کا ذکر ہو تو یہ اس بات کا قرینہ ہوگا کہ یہاں ’’بھول جانا‘‘سے مراد عمداً بھلا دینا یا نظر انداز کردینا‘‘ہے۔ کیونکہ خطا یا نسیان پرتو گرفت نہیں ہوتی۔
  • یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بعض اصحاب لغت نے فعل کا مادہ ’’ن س و‘‘ہی قرار دیا ہے۔[1] ویسے یہ مادہ (ن س و) بھی اگر باب سمِع سے آئے تو ’’نسِی یَنسی‘‘(رضی یرضی کی طرح)ہی ہوجائے گا۔ تاہم ’’نسِی ینسی‘‘کے مصادر میں ’’نسیاً اور نسیاناً‘‘کے علاوہ ’’نَسوۃً اور نَساوۃً‘‘ بھی مذکور ہوئے ہیں اور مصدر کی یہ ’’و‘‘ مادہ کے واوی الاصل ہونے پر دلالت کرتی ہے نیز اس واوی اللام مادہ (ن و س)سے فعل ’’نسا ینسُو نَسوۃً ‘‘(نصر سے) ’’کام چھوڑ دینا‘‘کے معنی دیتا ہے مثلا کہتے ہیں نسَاء الرجلُ=ترکَ عملَہ(یعنی آدمی نے کام چھوڑ دیا)۔ گویا ’’نسِی ینسَی‘‘کے مجازی معنی ’’اور نسا ینسُو‘‘کے حقیقی معنی ایک ہی ہیں (ترک کرنا)

________________________________

[1]   مثلا المعجم الوسیط۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں