اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

۱:۲:۲ (۴)     [الصَّلٰوةَ]  کا مادہ ’’ص ل و‘‘ اور وزن اصلی لام تعریف کے بغیر’ ’ فَعْلَۃٌ‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور’’فَعَلَۃٌ ‘‘بھی اور اس کی شکل اصلی ’’ صَلْوَۃٌ ‘‘یا ’’صَلَوَۃٌ‘‘ تھی۔ دونوں صورتوں میں تعلیل صرفی [واو متحرکہ ماقبل مفتوح کا الف میں بدلنا ]  میں بعد وزن ’’فَعَاۃٌ‘‘ رہ جاتا ہے۔ اور لفظ کی شکل’’صلاۃ‘‘ ہوجاتی ہے۔ جس کی املاء (قرآن میں تو) عموماً  ’’ صلٰوۃ‘‘ ہوتی ہے۔

  • اس مادہ (صلو) سے فعل ثلاثی مجرد ’’ صَلا یَصلُو صَلوًا‘‘ (باب نصر سے) بمعنی ’’صَلاپر مارنا‘‘ـــ اور صلِیَ  یَصْلٰی صَلًا (باب سمع سے اور دراصل صَلِو یَصْلَوُ) بمعنی ’’صلا‘‘ میں جھکاؤ پیدا ہونا یا اس کا ڈھیلا ہونا‘‘ آتا ہے۔[1]   تاہم نہ تو یہ فعل قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اور نہ ہی اس کے معنی کا لفظ ’’صلوۃ‘‘ کے ساتھ کوئی خاص تعلق ہے۔ (کھینچا تانی اور تکلّف الگ بات ہے) البتہ اس مادہ (صلو) کے باب تفعیل صلّی یُصَلِّی(دراصل صَلَّوَ یُصَلِّوُ)سے افعال اور بعض مشتقات کے پندرہ (۱۵) کے قریب صیغے آئے ہیں۔
  • لفظ ’’صلوۃ‘‘ اسی فعل ـــ  صلّی یصلِّی بمعنی ’’نماز پڑھنا‘‘ کے مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے یعنی صَلّی یصلِّی صلٰوۃً کہتےہیں۔ ’’تصلیۃً‘‘ نہیں کہتے۔ اس لئے کہ صَلّی یُصلِّی تصلیۃً (واوی یعنی ’’صلو‘‘سے) کے معنی تو ہیں ’’گھوڑے کا دوڑ میں دوسرے نمبر پر آنا‘‘ جن کا لفظ ’’صلوۃ‘‘ سے کچھ تعلق نہیں۔ (’’کولمبس‘‘ بننے کی خواہش الگ بات ہے) اور یہ فعل اپنے ان معنوں کے ساتھ قرآن مجید میں کہیں استعمال بھی نہیں ہوا۔[2] اور صَلّی یصلِّی تصلیۃً (یایٔ ۔ صلی سے) کے معنی ’’ آگ میں جلانا‘‘ ہیں۔ اس کا یہ استعمال قرآن کریم میں بھی آیا ہے۔ اور اس پر اپنے موقع پر بات ہوگی۔

بعض حضرات نے اس لفظ (صلوٰۃ)کے بنیادی معنی توجہ اور انعطاف یا ’’جھکاؤ‘‘ اور ’’میلان‘‘ لئے ہیں۔ اور بعض نے ’’صلوۃ‘‘ کی وجہ تسمیہ یا معنوی مناسبت یہ نکلالی ہے کہ اس میں آدمی (بحالت رکوع وسجدہ) اپنی ’’ صلا‘‘ (پیٹھ کے آخری حصہ یعنی کمر) کو حرکت دیتا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں معنی (خصوصاً پہلے معنی) کی فعل ثلاثی مجرّد کے معنی کے ساتھ ایک مناسبت تو بنتی ہے۔ تاہم اس لفظ (صلوۃ) کے معروف اصلی معنی ’’دعا‘‘ کے ہیں۔ بلکہ بعض اہل علم نے اسی لئے لکھا ہے کہ ’’صلوۃ‘‘ بمعنی ’’دعا‘‘ اتنا مشہور ہے کہ اس کا اشتقاق کسی غیر معروف (اور قرآن میں غیر مستعمل) عجیب و غریب فعل سے تلاش کرنا یا ثابت کرنا ’’کارِ بے کاراں‘‘ہے۔[3]  اور اس کا فعل (صَلّی یُصَلِّی صلوۃً) ’’علی‘‘کے صلہ کے ساتھ تو بنیادی طور پر اپنے اندر ’’دعا‘‘ (خصوصاً دعائے رحمت و برکت) کے ہی معنی رکھتا ہے۔

_______________________________

[1] اور ’’صلا‘‘  (جو در اصل ’’صَلَوٌ‘‘ ہے) اونٹنی یا گھوڑی۔ (یا گائے بھینس) کے جسم کے اس حصے کو کہتے ہیں جہاں سے پیٹھ یا کمر کا حصہ نیچے کی طرف مڑتا ہے۔ یعنی دُم سے اوپر اور پیٹھ کے نیچے دونوں طرف کا حصہ۔ جو بچہ کی پیدائش سے پہلے نیچے جھک جاتا ہے۔ بلکہ دُم سے اوپر دونوں جانب گڑھے سے نمودار ہوجاتے ہیں۔ ’’صلا‘‘ (پنجابی ڈُھگ) بلکہ دونوں’’صلا‘‘ (صلوان یعنی تثنیہ) کا یہ جھکاوٗ جانوروں میں ان کے بچے کی ولادت کے قرب (نزدیک ہونے)  کی یقینی علامت ہوتی ہے۔

[2] یہاں سے یہ نکتہ ذہن میں رکھ لیجئے کہ کسی ’’مادہ‘‘ سے مستعمل تمام افعال اور دیگر مشتقات میں ہمیشہ کسی بنیادی معنوی یکسانیت یا مشابہت کا پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ اس کی متعدد مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔

[3]  روح المعانی ج۱ ص ۱۱۶

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں