اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • اس طرح ’’کانا‘‘ کا ترجمہ ہوا ’’وہ دونوں تھے‘‘ یہاں ’’کانا‘‘فعل مذکر اس لیے آیا ہے کہ یہ صیغۂِ تثنیہ آدمؑ اور اس کی بیوی یعنی ایک مرد اور ایک عورت کے لیے ہے۔ اور عربی زبان میں جب مذکر مؤنث مِلِے جلے مراد ہوں تو اسم یا فعل کا صیغہ ہمیشہ مذکر والا آتا ہے۔ مثلا کہیں گے ’’الرجلُ و المرأۃ صالحانِ‘‘ (مرد اور عورت نیک ہیں) یا ’’الرجلُ والمرأۃ ذَھَبا‘‘ (مرد اور عورت گئے)۔ [مندرجہ بالا آیات میں جہاں جہاں تثنیہ مذکر کے صیغے مثلاً ’’کُلا‘‘، ’’شئتما‘‘، لا تقربا‘‘، فتکونا‘‘ آئے ہیں۔ وہ اسی قاعدے کے تحت آئے ہیں] اور اسی قاعدے کے مطابق قرآن کریم میں مَردوں کو بصیغہ جمع مذکر دئے گئے تمام احکام میں عورتیں بھی شامل سمجھی جاتی ہیں۔ جبکہ بصیغۂ جمع (یا واحد و تثنیہ) مؤنث بیان کردہ احکام صرف عورتوں کے لیے ہوتے ہیں۔ عربی زبان کا یہ اصول بہت سے قرآنی احکام کے فہم میں مدد دیتا ہے۔

قریباً تمام مترجمین نے یہاں ’’کانا‘‘ کا ترجمہ ’’وہ تھے‘‘سے ہی کیا ہے۔ صرف ایک دو نے ’’رہتے تھے‘‘ کیا ہے جو مفہوم کے لحاظ سے درست سہی مگر اصل ’’لفظ‘‘ سے ذرا ہٹ کرہے۔

’’(۳) فِیْہِ‘‘ جو   فِیْ (میں) اور ’’ہ‘‘ (اس) کا مرکب ہے، کا ترجمہ تو ہے، اس میں ’’مگر اس میں ضمیر ’’ہ‘‘ گزشتہ ’’مِمَّا‘‘ کے ’’ما‘‘ کے لیے ضمیر عائد ہے۔ اس لیے اس کا اردو ترجمہ ’’اس‘‘ کی بجائے ’’جس میں‘‘ہوگا۔

  • اس طرح اس پوری زیرِ مطالعہ عبارت (مِمَّا کانا فیہ) کا ترتیب وار لفظی ترجمہ بنتا ہے۔ ’’اس میں سے جو کہ وہ دونوں تھے اس میں‘‘ـــ ذرا سلیس ترجمہ ’’اس میں سے جو کہ وہ دونوں تھے جس میں‘‘اور بیشتر مترجمین نے یہی ترجمہ یا ’’ جس میں تھے اس میں سے‘‘ اختیار کیا ہے۔ البتّہ بعض نے ’’اس یا جس‘‘ اور ’’میں‘‘ کے درمیان بعض تفسیری کلمات (عزت و راحت، مزے، عیش و نشاط یا آرام وغیرہ) کا اضافہ کر ڈالا ہے جس پر تبصرہ اوپر گزرا ہے۔

[وَقُلْنَا] میں ’’وَ‘‘ بمعنی ’’اور‘‘ہے اور ’’قُلْنا‘‘(ہم نے کہا) کے مادہ، وزن، باب، معنی اور اس میں ہونے والی تعلیل (قوَلنا سے قُلنا) پر ابھی اوپر ۱:۲۵:۲(۱)میں اور اس سے پہلے البقرہ:۸ یعنی ۱:۷:۲(۵)میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

۱:۲۶:۲(۵)     [اِھْبِطُوْا] کا مادہ ’’ھ ب ط‘‘اور وزن ’’اِفْعِلُوْا‘‘ہے جس کا ابتدائی ہمزۃ الوصل پیچھے (قلنا کے ساتھ) ملنے کی بناء پر تلفظ سے ساقط ہوجاتا ہے۔ اس مادہ (ھبط)سے فعل مجرد ’’ھبَط یھبِط ھُبوطًا (باب ضرب سے) کے بنیادی معنی ’’کسی اونچائی سے نشیب کی طرف جانا‘‘ ہیں۔ جسے مختصراً  ’’نیچے جانا، نیچے اترنا، لڑھک جانا‘‘سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اور یہ فعل جسمانی یا معنوی دونوح طرح کی ’’پستی‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’ھبط من الطائرۃ‘‘(وہ ہوائی جہاز سے بذریعہ پیرا شوٹ نیچے آیا) ـ  جدید عربی میں پیرا شوٹ کو ’’مِھْبَطۃٌ‘‘(نیچے آنے کا آلہ) کہتے ہیں ــــ یا مثلاً ’’ھَبط من منزلتۃ‘‘ (وہ اپنے درجے سے نیچے گرگیا)۔ پھر یہ فعل بطور محاورہ ’’کم ہونا‘‘کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’ھبطَ الثمنُ‘‘(قیمت کم ہوگئی) یا ’’ھبَطتْ درَجۃُ الحرارۃِ‘‘ (درجہ حرارت یعنی گرمی کم ہوگئی)۔ تاہم اس قسم کے استعمالات قرآن میں نہیں آئے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں