اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃالبقرہ آیت نمبر ۳۵

۲۵:۲ وَ قُلۡنَا یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنۡہَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئۡتُمَا ۪ وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۳۵﴾

۱:۲۵:۲       اللغۃ

[وَقلنا] ’’وَ‘‘(بمعنی اور)اور ’’قُلْنَا‘‘ کے مادہ، وزن اور معنی پر ابھی اوپر والی آیت یعنی ۱:۲۴:۲(۱)میں بات ہو چکی ہے جس کی روشنی میں یہاں ’’قُلْنا‘‘ کا ترجمہ ’’ہم نے کہا‘‘ہی ہوگا۔ جسے بعض حضرات نے سیاقِ عبارت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’ہم نے فرمایا، ہم نے حکم دیا‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ ’’کہنا‘‘ کی بجائے ’’فرمانا‘‘ کا استعمال تو متکلم کے رتبہ کے لحاظ سے پھر بھی درست محاورہ ہے مگر ’’حکم دیا‘‘ والا ترجمہ نہ صرف لفظاً اصل سے بہت دور ہے (کہ بظاہرتو یہ ’’اَمَرْنا‘‘ کا ترجمہ ہے) بلکہ سیاقِ عبارت کے لحاظ سے بھی چنداں موزوں نہیں ہے۔ البتہ اس سے پہلی (گزشتہ)آیت (نمبر ۳۴ )میں ’’قُلنا‘‘ کا ترجمہ ’’ہم نے حکم دیا‘‘ مناسب تھا۔

[یٰاٰدَمُ] میں ابتدائی ’’یا‘‘ (جو رسم عثمانی میں بحذف الف لکھی جاتی ہے)تو حرفِ نداء بمعنی ’’اے‘‘ ہے۔ اور ’’آدم‘‘ کے مادہ، وزن وغیرہ پر البقرہ:۳۱ یعنی ۱:۲۲:۲(۲)میں بات ہوچکی ہے۔

۱:۲۵:۲(۱)     [اسْکُنْ] کا مادہ ’’س ک ن‘‘ اور وزن ’’اُفْعُلْ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’سکَن یسکُن‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے اور مصدر یا صلہ کے فرق کے ساتھ اس کے معنی بھی مختلف ہوجاتے ہیں۔ مثلاً: (۱)سکَن یسکُن سُکُونا‘‘ کے معنی ہیں ’’ٹھہر جانا، رک جانا، (حرکت سے) بند ہونا ’’مثلاً‘‘ بارش کا برستے برستے رک جانا‘‘کے لیے کہیں گے ’’سکن المطرُ‘‘ (بارش رک گئی)۔ اس صورت میں یہ  فعل لازم ہی ہوتا ہے۔

(۲) اور یہی فعل (اسی باب اور مصدر کے ساتھ) جب ’’اِلی‘‘ کے صلہ کے ساتھ آئے تو اس کے معنی ’’…سے سکون حاصل کرنا، …سے راحت اور آرام پانا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً کہیں گے ’’سکن الیہ‘‘(اس نے اس سے سکون پایا) ـ اور کبھی ان معنوں (سکون پانا) کے لیے یہی فعل ’’فی‘‘کے صلہ سے استعمال ہوتا ہے جیسے رات کے بارے میں قرآن کریم میں کئی بار آیا ہے۔ ’’لِتَسکُنُوا فیہ‘‘ (تاکہ تم اس یعنی رات میں آرام پاؤ)

 (۳) اور سکَن یسکُن سَکَنًا و سُکنیً‘‘مفعول بنفسہ کے ساتھ اور ’’فی‘‘ یا  ’’بِ‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی بطور فعل متعدی آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں: ’’(کسی جگہ) رہنے لگ جانا یعنی رہائش اختیار کرنا، وطن بنالینا، …میں بسنا،  …میں رہنا‘‘ مثلا کہیں گے: سکَن الدَار و بالدارِ وفی الدارِ (وہ گھر میں رہنے لگ گیا)۔ زیرِ مطالعہ آیت میں فعل امر ’’اُسکُنْ‘‘ ان ہی معنی کے لیے آیا ہے۔

(۴)سکُن یسکُن سکونۃً (باب کرم سے) آئے تو اس کے معنی ’’مسکین ہوجانا‘‘ہوتے ہیں ــــ  تاہم قرآن کریم میں اس باب (کرُم) سے اس فعل کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا  ـ  ـ  قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے باب نصر والے مختلف صیغے چودہ (۱۴)جگہ وارد ہوئے ہیں۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں