اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

[ألَا اِنَّھُمْ] کے تینوں اجزاء (ألَا ، اِنَّ اور ھم) پر اور اس ترکیب کے تراجم پر ابھی اوپر والی آیت البقرہ  ۱۲ [۱:۹:۲(۷)]میں بات ہوچکی ہے۔

[ھُمُ السُّفَهَاۗءُ] میں ابتدائی ’’ھم‘‘ (ضمیر فاصل) کا ترجم ’’وہی، وہی تو‘‘ ہوگا۔ اور ’’السفھاء‘‘ کے معنوں پر بھی اوپر بحث ہو چکی ہے ۱:۱۰:۲(۲)]میں) اب آپ اس حصہ ءآیت ( اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ السُّفَہَآءُ) کا گزشتہ آیت (۱۲) کے آخری حصہ (الاانھم ھم المفسدون) کے ترجمہ سے موازنہ کرتے ہوئے خود ترجمہ کرسکتے ہیں۔

[وَلٰكِنْ]کے معنی اور استعمال پر بھی  ابھی اوپر [۱:۹:۲(۸)] میں بات ہوئی ہے۔

۱:۱۰:۲(۳)     [لَا يَعْلَمُوْنَ] کا ابتدائی ’’لا‘‘ تو فعل میں منفی کے معنی پیدا کرنے کے لیے ہے۔ اور ’’یَعْلَمُوْن‘‘ کا مادہ ’’ع ل م‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُوْن‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’علِم … یعلَم عِلْمًا‘‘ (باب سمع سے) بکثرت استعمال ہوتا ہے اور اس کے بنیادی معنی تو ’’…کو جاننا یاجان لینا‘‘ ہیں ۔ تاہم یہ کبھی ’’کسی چیز کی حقیقت جان لینا‘‘ اور اس کے بارے میں یقین حاصل کرلینا‘‘ (یعنی تَیَقَّنَ) کے معنوں میں آتا ہے۔ اس وقت اس کے دو مفعول مذکور ہوتے ہیں۔ جیسے ’’ عَلِمۡتُمُوۡہُنَّ مُؤۡمِنٰتٍ ‘‘ (الممتحنہ:۱۰) میں آیا ہے۔

اور اگر صرف ’’جاننا، پہچان لینا‘‘ (عَرَف) کے معنوں میں ہو تو صرف ایک مفعول کے ساتھ آتا ہے۔ جیسے ’’ یَعۡلَمُ خَآئِنَۃَ الۡاَعۡیُنِ ‘‘ (المؤمن:۱۹) میں ہے اور یہ استعمال قرآن کریم میں بکثرت ہے (دو سو سے بھی زائد مقامات پر)۔اور ان معنوں کے لیے اس کا مفعول بنفسہٖ(صلہ کے بغیر) بھی آتا ہے جو کوئی اسم بھی ہوسکتا ہے اور ’’أنْ‘‘ سے شروع ہونے والا کوئی جملہ بھی ـــ اور بعض دفعہ اس فعل پر باء(بِ) کا صلہ بھی آتا ہے۔ جیسے ’’یَعۡلَمُوۡنَ بِمَا غَفَرَ لِیۡ   ‘‘(یٰس :۲۶) میں ہے۔ یعنی یہ فعل ’’علِمہٗ اور علِم بِہ‘‘ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور اس (صلہ والے فعل) سے ہی صفت مشبہ ’’علیم ‘‘ اور افعل التفضیل ’’اعلمُ‘‘ اکثر اسی صلہ (بِ) کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔

اور کبھی یہ فعل (علِم) فعل لازم کی طرح ’’عالم ہونا، صاحب علم ہوجانا‘‘ کے معنوں میں بھی آتا ہے اس وقت اس کے ساتھ مفعول مذکور نہیں ہوتا جیسے ’’ والذین لایعلمون ‘‘ (الزمر:۹) اور ’’جو جاہل ہیں‘‘ کے معنوں میں آیا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل کا یہ استعمال (بحذفِ مفعول) بھی بکثرت آیا ہے۔ اور جب یہ فعل اللہ تعالیٰ کے بارے میں آئے تو اس کے معنی ’’ظاہر کردینا، واضح کردینا یا فرق کردینا‘‘ کے ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ’’ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ الۡمُفۡسِدَ مِنَ الۡمُصۡلِحِ ؕ ‘‘ (البقرہ:۲۲۰) میں اور بہت سے دوسرے مقامات پر اس کی مثالیں ملتی ہیں۔

 

۲:۱۰:۲      الاعراب

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا کَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ؕ اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ السُّفَہَآءُ وَ لٰکِنۡ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۳﴾

            آیت کا ابتدائی حصہ (واذا … سے السفھاء تک) دراصل دو جملوں پر مشتمل ہے جو شرط اور جواب شرط کے طور پر ایک بڑا جملہ بناتے ہیں۔ آخری حصہ (ألَا انھم سےلایعلمون تک) بھی دراصل دو جملے ہیں جن کو واو عاطفہ سے ملادیا گیا ہے۔ اعراب کی تفصیل یوں ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں