۱:۹:۲(۷) [أَلَا] کو حرفِ استفتاح کہتے ہیں۔ یعنی اس سے کسی حقیقت کے بیان کا آغاز ہوتا ہے۔ اور اس میں تنبیہ (خبردار کرنے) کا مفہوم ہوتا ہے۔ یعنی مخاطب کو اس حقیقت کی طرف (جو اس کے بعد بیان ہوتی ہے) متوجہ کرنے کے لیے یہ حرف (أَلَا) کلام کے شروع میں لاتے ہیں۔ یہ متوجہ کرنا کبھی ’’جھڑکنے‘‘ کے معنوں میں ہوتا ہے اور کبھی نرمی سے کسی چیز کی طرف ترغیب دلانے کے لیے بھی آتا ہے۔ تنبیہ کے لیے آئے تو عموماً اس کے بعد ’’اِنَّ‘‘ یا کوئی حرف ندا آتا ہے۔ اور تحضیض(طلب و ترغیب) کے لیے آئے تو عموماً اس کے بعد کوئی فعل آتا ہےـــ خیال رہے کہ یہ (ألا) اکٹھا ایک ہی لفظ ہے۔ بعض دفعہ یہ (ألا) مرکب ہوتا ہے یعنی أ (استفہامیہ) اور لا (نافیہ) سے مل کر بنا ہوتا ہے۔ اس کا ترجمہ ’’کیانہیں؟‘‘ سے ہوتا ہے۔ عبارت کے سیاق وسباق سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں کونسا ’’ ألا ‘‘ہے۔
- تنبیہ اور استفتاح کے مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اردو مترجمین نے ’’ ألَا ‘‘ کا ترجمہ ’’خبر دار رہو، سن رکھو، یاد رکھو،سن لو، سنوجی، سنتا ہے؟، سن تو اور دیکھو!‘‘ سے کیا ہے۔ یہ تمام ترجمے اردو محاورے کی بناء پر درست ہیں۔ اس لیے کہ ’’ ألا ‘‘ کی طرح کا کوئی مختصر بدل اردو میں نہیں ملتا۔
[اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ] جو اِنَّ +ھُم+ھُم+المُفسدون کا مرکب ہے۔ جس کا لفظی ترجمہ ’’بے شک وہ ہی تو "المفسدون" ہیں‘‘ اس میں کلمہ ’’المفسدون‘‘ کا مادہ ’’ف س د‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’مُفْعِلُوْن‘‘ ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے باب ِافعال کا اسم الفاعل (جمع مذکر سالم) ہے۔ اس باب (افعال) اور لفظ ’’فساد‘‘ کے معنی و استعمال پر ابھی اوپر (۱:۹:۲(۳)) میں بات ہوچکی ہے۔ اس کے مطابق ہی اردو مترجمین نے ’’مفسدون‘‘ کا ترجمہ ’’فساد کرنے والے، بگاڑنے والے، خرابی کرنے والے، مفسد اور فسادی‘‘ سے کیا ہے۔ خیال رہے کہ اردو محاورے میں لفظ ’’مُفْسِد‘‘ جمع کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔
۱:۹:۲(۸) [وَلٰكِنْ] جو ’’وَ+لٰکِن‘‘ کا مرکب ہے۔ اس میں ’’لٰکِنْ‘‘، ’’لٰکِنَّ‘‘ (حرف مشبہ بالفعل) ہی کی دوسری شکل ہے۔ اور یہ دونوں (لٰكِنْ اور لٰکِنَّ) ہر طرح اردو کے لفظ ’’لیکن کے ہم معنی ہیں۔ البتہ استعمال میں یہ فرق ہے کہ ’’ لٰكِنَّ ‘‘ کے بعد ہمیشہ کوئی اسم (منصوب)آتا ہے ۔ جب کہ ’’ لٰکِنْ ‘‘ کے بعد فعل یا اسم دونوں لائے جاسکتے ہیں۔ نیز ’’ لٰکِنْ ‘‘ غیر عامل ہے یعنی یہ اپنے بعد آنے والے اسم کو نصب نہیں دیتا۔ عربی میں یہ عموماً ’’ وَلٰکِن ‘‘ (یعنی ماقبل ایک واو عاطفہ کے ساتھ) استعمال ہوتا ہے۔ جس (واو) کا اردو ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور صرف ’’لیکن‘‘ ہی سے کام چل جاتا ہے۔
[لَّا يَشْعُرُوْنَ] کا مادہ ’’ش ع ر‘‘ اور وزن ’’لا یَفْعُلُوْن‘‘ ہے۔ جس میں ’’لا‘‘ نافیہ ہے (جس سے فعل میں نفی کے معنی پیدا ہوئے ہیں)۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد اور اس کے معنی و استعمال پر مفصّل بات پہلے البقرہ:۱۱ کے ضمن میں ہوچکی ہے۔[دیکھیے:۔۱:۸:۲(۵)میں]