[قَالُوْا] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے۔ اس کے فعل مجرد کے معنی وغیرہ کے لیے دیکھیے ۱:۷:۲ (۴)۔یہاں شروع میں (125#)آجانے کی وجہ سے اس فعل ماضی (قالوا) کا ترجمہ ’’کہتے ہیں‘‘ نہیں بلکہ جواب ِشرط ہونے کی وجہ سے ’’تو کہتے ہیں‘‘ ہوگا۔
[أَنُؤْمِنُ] میں ابتدائی ’’أ‘‘ تو استفہامیہ (بمعنی کیا؟) ہے اور ’’نُؤمِنُ‘‘ کا مادہ ’’ام ن‘‘ اور وزن ’’نُفْعِلُ‘‘ ہے جو اس مادہ سے باب افعال کا فعل مضارع (صیغہ جمع متکلم) ہے۔ اس کے مادہ وباب اور معنی وغیرہ کے لیے۱:۲:۲(۱) کی طرف رجوع کیجئے۔ اس کا لفظی ترجمہ تو ’’کیا ہم مان لیں /ایمان لائیں‘‘ ہوگا جس کو بعض حضرات نے ’’کیا ہم مسلمان ہوجائیں؟‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جسے مفہوم کے لحاظ سے ہی درست قرار دیا جاسکتا ہے۔ اور بعض نے اس سے اگلی عبارت کو ملحوظ رکھ کر بامحاورہ ترجمہ کیا ہے۔ اس کا ذکر ابھی آئے گا۔
[كَمَا آمَنَ] پر ابھی اوپر (اسی آیت میں) بات ہوچکی ہے یعنی ’’جس طرح ایمان لایا‘‘ ، ’’ یا لائے‘‘
۱:۱۰:۲(۲) [السُّفَهَاۗءُ] کا مادہ ’’س ف ھ‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فُعَلَاءُ‘‘ (غیر منصرف) ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد زیادہ تر ’’سفِہ یسفَہ سفاھۃً وَ سَفَھًا‘‘ عموماً (باب سمع سے) آتا ہے۔ اور اس کے عام معنی تو ہیں ’’بے وقوف ہونا، عقل سے خالی ہونا، بدھو ہونا، احمق ہونا‘‘ یعنی یہ فعل لازم ہے۔ تاہم بعض دفعہ یہ فعل متعدی بھی استعمال ہوتا ہے۔یعنی ’’بے وقوف بنانا، مت مار دینا، احمق بنا دینا‘‘ کے معنوں میں آتا ہے۔
- بعض اہل علم (اصحاب ِلغت) کا کہنا ہے ۱۔کہ یہ فعل با ب ’’سمع‘‘سے تو متعدی معنی کے لیے آتا ہے اور لازم کے معنی میں یہ باب ’’کرُم‘‘ سے استعمال ہوتا ہے اور اس لیے اس سے اسم الفاعل (سافِہٌ) کی بجائے صفت مشبہ ’’سَفِیْہ‘‘ (بوزن ’’فعیل‘‘) آتی ہے۔ جس کے معنی ہیں ’’احمق یا بیوقوف‘‘ اور کتبِ لغہ کے ’’بیانات‘‘ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۲۔ کہ ’’باب سمع ‘‘ سے آنے والے پانچ چھ افعال ایسے ہیں جو عام طور پر بطور ’’لازم‘‘ استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم کبھی کبھی یہ فعل متعدی کے طور پر بھی آتے ہیں۔ اس قسم کے افعال میں سے ’’سفِہ‘‘ اور ’’بطِر‘‘ قرآن کریم میں بھی وارد ہوئے ہیں۔ اور بعض (مثلاً ’’اَلِمَ‘‘یا ’’رشِد‘‘) سے کوئی صیغۂ فعل تو نہیں مگر کچھ اسمائے مشتقہ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
- اس مادہ (سفہ) سے ثلاثی مجرد کے صرف ایک صیغۂ ماضی (البقرہ: ۱۳۰) کے علاوہ کوئی اور فعل قرآن کریم میں نہیں آیا۔ البتّہ کچھ مصدر اور مشتقات (سَفَہٌ، سَفَاھَۃٌ، سَفِیْہٌ اور سُفَھَاءُ) استعمال ہوئے ہیں زیر مطالعہ لفظ ’’ السفَهَاۗءُ ‘‘ صفت مشبہ ’’سَفِیْہ‘‘ کی جمع مکسر معرف باللام ہے۔ اور یہ جمع غیر منصرف بھی ہےـــ اس طرح كَمَا/ آمن/ السفهاءُ ‘‘ کا ترجمہ ہوگا ’’جیسا/جیسے/ جس طرح۔ مسلمان ہوئے/ ایمان لائے/بیوقوف/احمق "اور اسی کو زیادہ بامحاورہ بنانے کے لیے بعض مترجمین نے اس سے سابقہ کلمات کو بھی ساتھ ملا کر ’’ انؤمن کماآمن السفھاء ‘‘ کا مجموعی ترجمہ ’’کیا ہم احمقوں کی طرح ایمان لائیں؟‘‘ کیا ہے۔ مفہوم درست مگر الفاظ (نص) سے ذرا ہٹ کر ہے۔ کیونکہ اس میں ’’آمن‘‘ کا ترجمہ نہیں آیا۔ اور بعض نے محاورے کے جوش میں اسی حصہ آیت کا ترجمہ ’’کیا ہم بھی اُلّو بن جائیں جس طرح اُلّو ایمان لائے ہیں‘‘ کر دیا ہے۔ یہ کسی طرح درست نہیں کہا جاسکتا ۔ اس لئے کہ اس میں تو ’’ اَ نُؤْمِنُ ‘‘ کا ترجمہ ’’کیا ہم اُلّو بن جائیں‘‘ کر دیا گیاہےـــ ترجمہ میں الفاظ اور محاورہ میں توازن رکھنا ہی تو مُتَرجم کے لیے دشوار ہے مگر اسی میں اس کا کمال ہے۔