اور اس (قسم کی تراکیب) میں لفظ ’’نفس‘‘ یا ’’انفس‘‘کی فاعلی، مفعولی یا اضافی حالت (رفع نصب جر) کے مطابق ’’ آپ یا خود یا اپنا، اپنے، اپنی‘‘ وغیرہ کے ساتھ ترجمہ کیا جائے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہاں (آیت زِیر مطالعہ میں) اردو مترجمین نے ’’ انفسَھم‘‘ کا ترجمہ ’’جانوں اپنی کو، اپنے آپ کو، اپنی ذات کو، یا اپنی جانوں کو‘‘ یا ’’اپنے کو‘‘ سے کیا ہے اور ان میں سے زیادہ بامحاورہ ’’اپنے آپ کو‘‘ ہی ہے۔ لفظ’’نفس‘‘ مختلف صورتوں ـ (واحد جمع، مفرد مرکّب)ـ میں قرآن کریم میں ۲۹۵ جگہ وارد ہوا ہے۔
۱:۸:۲(۵) [وَمَا يَشْعُرُوْنَ]جو وَ+مَا+یَشْعُرون سے مرکب ہے اس میں ’’ وَ ‘‘ بمعنی ’’اور‘‘ ہے اور یہاں اس کا بامحاورہ ترجمہ ’’مگر‘‘ یا ’’لیکن‘‘ سے بھی کیا جاسکتا ہےـــ اور ’’ مَا ‘‘ نافیہ (بمعنی نہیں) ہے جو فعل پر داخل ہوئی ہے جس سے اس کے معنی منفی ہوگئے ہیں۔ اور کلمہ ’’یشعرون‘‘ کا مادہ ’’ش ع ر‘‘ اور وزن ’’یَفْعُلُونَ‘‘ ہے۔
اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرّد عموماً ’’شعَر یَشعُر شَعْرًا‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ’’جاننا، محسوس کرنا یا سمجھنا‘‘ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ فعل اسی باب سے اور ان ہی معنی میں استعمال ہوا ہے (۲۵ جگہ) اور ہر جگہ فعل بصیغۂ مضارع آیا ہےـ عربی زبان میں یہ مادہ (شعر) اسی باب (نصر) سے اور بعض دیگر ابواب مجرّد (مثلاً سمع) سے بعض دیگر معانی (مثلاً شعر کہنا، بال زیادہ ہونا وغیرہ) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم ان کا استعمال قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔ اس (مادہ سے) مزید فیہ کے بھی صرف باب اِفعال سے دو ہی صیغے قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں ـ اَفعال کے علاوہ اس مادہ (شعر) سے بعض اسماء مشتقہ و جامدہ (مثلاً، شِعر، شاعر، شعائر، شعری، مشعر وغیرہ) بھی قرآن کریم میں وارد ہوئے ۔ جن پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
- یہ فعل (شعَر یشعُر) بنیادی طور پر متعدی ہے۔ تاہم عموماً اس کے ساتھ اس کا مفعول مذکور نہیں ہوتا۔ اگر اس کے ساتھ مفعول بیان کرنا ہو تو پھر فعل کے ساتھ ’’باء‘‘(بِ) کا صلہ آتا ہے مثلاً کہیں گے ’’شعربہ‘‘ (اسے جان لیا، اسے سمجھ گیا) تاہم قرآن کریم میں یہ فعل (ثلاثی مجرد) ہر جگہ ذکرِ مفعول کے بغیر ہی آیا ہے۔ اگرچہ یہ محذوف مفعول تقدیراً موجود (UNDERSTOOD) ہوتا ہے۔ جسے سمجھا جاسکتا ہے یعنی ’’وَمَا یَشعُرُونَ بِہ‘‘ کی صورت میں یہی وجہ ہے کہ بعض اردو مترجمین نے اس محذوف مفعول کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’وَمَا یَشْعُرون‘‘ کا ترجمہ ’’وہ اس کا شعور نہیں رکھتے‘‘ اور (اس بات کو) نہیں سمجھتے‘‘، ’’اس کا احساس نہیں رکھتے‘‘، اور ’’اس سے بے خبر ہیں‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔
- یہاں یہ بات بھی قابل، ذکر ہے کہ ’’بے خبر ہیں‘‘ کے ساتھ ترجمہ کو مفہوم اور محاورے کی رُو سے درست بھی سمجھا جائے تب بھی لغت اور الفاظ کے لحاظ سے یہ محلِ نظر ہے۔ اس لئے کہ اوّل تو منفی جملیہ فعلیہ (ما یشعرون‘‘) کا ترجمہ مثبت جملہ اسمیہ سے کردیا گیا ہے۔ دو سرے ’’بے خبر‘‘ما یشعرون‘‘ سے زیادہ ’’غافلون‘‘ کا ترجمہ لگتا ہے۔ اگر ’’خبر نہیں رکھتے‘‘ ہوتا تو لفظ سے قریب تر ہوتا۔
- بعض مترجمین نے مفعول (غیر مذکور) کو ترجمہ میں نظر انداز کرتے ہوئے لفظی ترجمہ سے قریب رہنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں زیادہ تر نے ’’نہیں سمجھتے‘‘ ہی سےترجمہ کیا ہے۔ بعض نے ’’نہیں بوجھتے‘‘ اور بعض نے ’’نہیں سوچتے‘‘بھی کیا ہے جو ’’ یشعرون‘‘ سے زیادہ ’’یتفکرون‘‘ کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔