لفظ ’’ غِشَاوَةٌ‘‘ دراصل تو فعل ثلاثی مجرد کا ایک مصدر ہے۔ پھر مصدر بمعنی اسم الفاعل لیتے ہوئے ’’غشاوۃ‘‘ سے مراد وہ چیز لی جاتی ہے جس سے کسی شے کو ڈھانپنے کا کام لیا جائے یاجو ڈھانپ دینے کاکام دے۔ اور یہ لفظ (غشاوۃ)حسی سے زیادہ معنوی مفہوم کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اورخصوصاً آنکھ یا دل کو ڈھانپ لینے یا ان پر ’’پردہ ڈالنے‘‘ کے معنی دیتا ہے۔ ان معنی کے لیے عربی زبان میں یہ لفظ (غشاوۃ)مثلث الغین ہے۔ یعنی اس کی ’’غ‘‘ پر تینوں حرکات (ـــــَــــ ، ــــــِــــ ، ـــــُـــــ) پڑھی جاسکتی ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں (خصوصا روایت حفص میں) یہ لفظ ’’غ‘‘ کی کسرہ (ــــــِــــ) سے ہی پڑھا گیاہے۔اور مندرجہ بالا مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے اکثر مترجمین نے اس لفظ کا اردو ترجمہ ’’پردہ‘‘ ہی کیا ہے ۔ ایک صاحب نے غالباً محاورے کے جوش میں اس کا ترجمہ ’’گھٹا ٹوپ‘‘ بھی کر دیا ہے جو بظاہر ’’غِشَاوَةٌ ‘‘ سے زیادہ مُظلِم یا ظلُمات کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔
[وَلَھُمْ] میں ’’و‘‘ عاطفہ (بمعنی اور) ہے اور ’’لَھُمْ‘‘ میں ضمیر مجرور (ھُمْ) سے پہلے لام الجرّ (لِ)ہے جو ضمائر کے ساتھ (یائےمتکلم کے سوا) ہرجگہ مفتوح (لَ) پڑھی جاتی ہے۔ یوں ’’وَلَھُمْ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے’’ اور ان کے لیے‘‘ (ہوگا یا ہے)
۱:۶:۲(۶) [عَذَابٌ] لفظ ’’عذاب‘‘ کا مادہ ’’ع ذ ب‘‘اور مادہ ’’فَعَالٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد مختلف ابواب سے مختلف معنوں کے لیے کبھی لازم اور کبھی متعدی آتا ہے مثلاً ’’عَذَبَ یَعذِبُ عَذْبًا‘‘ (باب ضرب سے) کے معنی ہوتے ہیں: ’’کسی کو روک دینا ‘‘ مثلاً کہیں گے’’عذَب فلانا‘‘۔ اور اسی کے معنی ’’پیاس کی شدت کے باعث کھانا یا نیند چھوڑ دینا‘‘ بھی ہوتے ہیں مثلاً کہیں گے (’’عَذبَ الرَجلُ‘‘) اور ایسے آدمی کو ’’عاذِب‘‘ کہتے ہیں۔ عذِبَ یَعذَبُ عَذَبًا (باب سمع سے) کے معنی ’’پانی کی سطح پر سبز کائی سی آجانا‘‘ ہیں۔ مثلاً عَذِبَ الماءُ (پانی کا کائی والا ہونا) ـ اور عذُبَ یَعذُب عَذُوبۃً (باب کرم سے) کے معنی ’’پانی کا میٹھا (عَذْبٌ) ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ (عذب) سے فعل ثلاثی مجرد کہیں بھی اور کسی معنی میں بھی استعمال نہیں ہوا۔
- لفظ ’’عذاب‘‘ جو اس مادہ (عذب) سے ایک جامد اسم ہے اس کے لغوی معنی یوں بیان ہوئے ہیں: ’’ہر وہ چیز جو انسان پر گراں گزرے اور اسے اس کے ارادوں سے روک دے۔‘‘[1] اردو میں ’’عذاب ‘‘ کا ترجمہ ’’سزا‘‘ یا ’’مار‘‘ کیا جاتا ہے۔ خود لفظ ’’عذاب‘‘ بھی اردو میں مستعمل ہے۔ لفظ عذاب عموماً جسمانی سزا یا مار کے لیے آتا ہے۔ مگر بطورِ استعارہ کسی سخت تکلیف دہ ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ عربی کا لفظ ’’عقوبت‘‘ بھی عذاب کے ہم معنی اور اردو میں متعارف ہے۔
- ’’راغب‘‘ نے ’’مفردات‘‘ میں عذاب کے ان معنوں کی اصل یا مناسبت کے بارے میں تین چار اقوال بیان کئے ہیں۔ [2] ان میں بظاہر یہی (روک دینا یا رک جانا والے) معنی زیادہ مناسب اصل معلوم ہوتے ہیں۔ کیونکہ عذاب کا مقصد سزا پانے والے کو یا دوسروں کا اس کام سے روکنا اور باز رکھنا بھی ہوتا ہے۔
__________________________________
[1] ا قرب الموارد ۔ راغب نے مفردات میں ’’عذاب‘‘ کے معنی ’’ایجاع شدید‘‘ یعنی سخت درد (دکھ) پہنچانا‘‘ بتائے ہیں جو بنیادی طور پر ’’جسمانی مار‘‘ کے لیے ہی ہے۔
[2] دیکھئے: راغب (المفردات) نیزLane کی مد القاموس تحت مادہ ’’عذب‘‘