اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیات  ۱۰۶  اور  ۱۰۷

۲ : ۶۴       مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۰۶﴾اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷﴾ 

۲ : ۶۴ : ۱      اللغۃ

لغوی اعتبار سے تو اس قطعہ میں صرف ایک ہی لفظ ’’ نَنْسَخْ ‘‘ نیا ہے، باقی تمام کلمات براہ راست یا بالواسطہ پہلے گزر چکے ہیں۔ لہٰذا عبارت کو چھوٹے چھوٹے جملوں میں تقسیم کرکے ہر ایک کلمہ کا ترجمہ مع گزشتہ حوالہ لکھ دینا کافی ہوگا۔

۲ : ۶۴ : ۱ (۱)     [مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا. . . .]

(۱) ’’ مَا ‘‘ (جو بھی ۔ جس کو بھی) یہاں ’’ مَا ‘‘ موصولہ بطور  شرطیہ ہے، دیکھئے [۲ : ۲ : ۱ (۵) ]

(۲) ’’ [نَنْسَخْ] ‘‘کا مادہ ’’ن س خ ‘‘ اور وزن ’’نَفْعَلْ ‘‘ ہے۔ یعنی یہ فعل مجرد سے صیغہ مضارع مجزوم جمع متکلم ہے (جزم کی وجہ ’’الاعراب ‘‘ میں آئے گی)۔

اس مادہ سے فعل مجرد ’’ نَسَخَ. . . . ینسَخُ نَسْخا‘‘ (فتح سے ) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’ . . . .کو (اس کی جگہ سے)ہٹا دینا۔ مٹا دینا ‘‘ (اس کی جگہ کوئی دوسری چیز لائی جائے یا نہ لائی جائے)۔ اس فعل کا مفعول بنفسہٖ (منصوب )آتا ہے، مثلاً کہتے ہیں ’’نسخَتِ الریح الأثرَ‘‘ (ہوا نے نشان کو مٹا دیا)۔پھر اس فعل میں بلحاظ استعمال کئی مفہوم پیدا ہوتے ہیں۔

(۱)  بعض دفعہ اس میں کسی چیز کو ہٹا کر خود (فاعل کا)اس کی جگہ لے لینے کا مفہوم ہوتا ہے، مثلاً کہتے ہیں ’’نسخ الشیبُ الشبابَ ‘‘ (بڑھاپے نے جوانی کو ہٹا دیا، یعنی خود اس کی جگہ لے لی) 

(۲) اور بعض دفعہ ان ہی معنوں کے لئے ہٹائی جانے والی چیز تو عبارت میں مفعول بنفسہٖ (منصوب) ہو کر آتی ہے مگر اس کی جگہ لائی جانے والی چیز کا ذکر ’’بِ‘‘ (کے ذریعے) کا صلہ لگ کر ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’نسخ شیئا بشیءٍ ‘‘ (اس نے ایک چیز کو کسی دوسری چیز سے ہٹا دیا یعنی پہلی کو ہٹا کر دوسری اس کی جگہ لایا)تاہم یہ ’’بِ ‘‘ کے صلہ والااستعمال قرآن کریم میں نہیں آیا۔ 

(۳) پھر اسی سے اس فعل میں ’’ہٹا کر دوسری جگہ لے جانا ‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ’’نسختِ الشمسُ الظلَّ ‘‘ (سورج نے سائے کو ہٹا دیا، یعنی اسے دوسری جگہ لے گیا) اور  

(۴) پھر اس ’’منتقل کرنا‘‘ سے اس میں اصل کے مطابق ’’نقل کرنا‘‘ کے معنی آتے ہیں یعنی اصل کو ہٹائے یا مٹائے بغیر بلکہ اسے ثابت اور برقرار رکھتے ہوئے اس جیسی دوسری چیز تیار کر لینا۔ مثلاً کہتے ہیں ’’نسخَ الکتاب ‘‘ (اس نے کتاب(سے دوسری کتاب یا عبارت)حرف بحرف نقل کرلی ، لکھ لی۔)

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں