اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت  ۸۰ تا۸۲

۱:۵۰:۲   وَ قَالُوۡا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدَۃً ؕ قُلۡ اَتَّخَذۡتُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ عَہۡدًا فَلَنۡ یُّخۡلِفَ اللّٰہُ عَہۡدَہٗۤ اَمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸۰﴾بَلٰی مَنۡ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّ اَحَاطَتۡ بِہٖ خَطِیۡٓــَٔتُہٗ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۸۱﴾وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿٪۸۲﴾    

۱:۵۰:۲       اللغۃ

[وَقَالُوْا] جس کا ترجمہ ’’اور انہوں نے کہا‘‘ بنتا ہے۔ مگر یہاں ’’یہود کے کردار اور ان کے دعووں‘‘ کی بات چل رہی ہے۔ اس لیے سیاقِ عبارت میں اس کا ترجمہ ماضی کی بجائے حال کے ساتھ کیا جاسکتا ہے یعنی ’’اور وہ کہتے ہیں‘‘۔ ’’قالوا‘‘ (جو فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے) کے مادہ، وزن، باب فعل اور معنی وغیرہ پہلے کئی دفعہ گزر چکے ہیں مثلاً دیکھئے البقرہ:۱۱ [۱:۹:۲ (۴)]

۱:۵۰:۲ (۱)     [لَنْ تَمسَّنا] یہ فعل مضارع منصوب منفی بلَن، لَنْ، تَمَسَّ‘‘ کے ساتھ ضمیر منصوب متصل ’’نَا‘‘ (بمعنی ہم کو) کا مرکب ہے اور’’لَنْ تَمَسَّ‘‘ کا مادہ ’’م س س‘‘ اور وزن (پورے صیغے) کا ’’لَنْ تَفْعَلَ‘‘ہے یہ دراصل ’’ لَنْ تَمَسَّ ‘‘تھا۔ پھر دونوں سین مدغم ہوگئے۔

فعل مجرد اس مادہ سے ’’مسَّ. . . . .یَمَسُّ(دراصل مَسِسَ یَمْسَسُمَسًّا (سمع سے) سے آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’. . .. .کو چھونا(ہاتھ وغیرہ سے)، . . . . . .کو ہاتھ لگانا‘‘ جیسے ’’ لَّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ‘‘ (الواقعہ:۷۹)میں ہے کہ ’’اسے نہیں ہاتھ لگاتے/ چھوتے مگر باطہارت لوگ۔ ’’مَسٌّ‘‘ میں زور اور شدت (سے چھونے) کا ــــ یعنی ’’چپک جانے‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے (جیسے ’’لَمْس‘‘ میں ہلکے سے ’’چھونا ‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے) پھر مجاز اور استعارہ میں ’’آلگنا، آپکڑنا‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے (یعنی جو دکھ یا سکھ انسان کو پہنچے) جیسے ’’ ْ مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ  ‘‘ (الحجر:۵۴) میں ہے یعنی ’’مجھ کو آلگا بڑھاپا‘‘ اسی طرح ’’ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا  ‘‘ اور ’’ وَّاِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوْعًا  (المعارج:۲۰۔۲۱) میں ہے (جب اس کو دکھ پہنچتا ہے/ جب اس کو بھلائی پہنچتی ہے) قرآن کریم میں اس کا زیادہ استعمال برائی، دکھ، عذاب/ شر، آگ تھکاوٹ، سختی وغیرہ کے ساتھ ہوا ہے۔ اگرچہ بھلائی (خیر، حسنۃ، سرّاء) کے ساتھ بھی آیا ہے مگر کم۔ اور کبھی یہ فعل بطور استعارہ مردوعورت کے جنسی تعلق قائم ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ’’مسَّ المرأَۃ‘‘ (اس نے عورت کو چھوا یعنی اس سے جنسی تعلق رکھا) اور اسی معنی میں قرآن کریم میں ہے ’’ لَمْ يَمْسَسْنِيْ بَشَرٌ ‘‘ (مریم:۲۰) یعنی ’’مجھے کسی آدمی نے ہاتھ نہیں لگایا  اور ’’ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ‘‘ (الاحزاب:۴۹) یعنی رخصتی سے پہلے اور ’’مَسُّ الشیطان‘‘ (شیطان کا آلگنا) ’’پاگل پن‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے مختلف صیغے ساٹھ ۶۰ کے قریب مقامات پر آئے ہیں اور باب تفاعل سے صرف ایک صیغہ دو جگہ آیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے مشتق و ماخوذ کلمات بھی دو تین جگہ وارد ہوئے ہیں۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں