اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

۱:۱۹:۲(۶)     [اَلحَقُّ] کا مادہ ’’ح ق ق‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر)’’فَعْلٌ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل حَقْقٌ تھی جس میں ساکن ’’ق‘‘ کا متحرک ’’ق‘‘ میں ادغام ہوکر لفظ "حقُّ" رہ جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’حَقَّ یَحِقُّ (دراصل حَقَقَ یَحْقِقُحَقًّا(باب ضرب سے) آتا ہے اور بقول راغب اس کے بنیادی معنی ہیں:’’موافق اور مطابق ہونا‘‘ یعنی کسی چیز کا اپنی جگہ کے موافق اور مطابق واقع ہونا‘‘ پھر اس سے اس میں ’’درست ثابت ہونا، واجب ہونا، سچ ہونا، ٹھیک ہونا، حقیقت بن جانا، برقرار رہنا، پکا ہونا، لازم ہونا، کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر تو بطور فعل لازم استعمال ہوتا ہے۔ تاہم کبھی اسی باب (ضرب) سے مگر زیادہ تر باب نصر سے(حقَّ یحُقّ) بطور فعل متعدی بھی آتا ہے اور اس کے معنی ’’ثابت کرنا، واجب کرنا، گرہ کو مضبوط باندھنا، کسی چیز کی حقیقت پالینا یا سمجھ لینا‘‘ ہوتے ہیں۔ اس طرح بعض معنی کے لیے یہ فعل (لازم اور متعدی سے) معروف اور مجہول دونوح طرح استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے ’’حَقَّ‘‘ اور ’’حُقَّ‘‘ کے معنی ایک ہی بنتے ہیں یعنی ’’واجب ہونا یا واجب کردیا جانا‘‘ البتہ اس فعل کے استعمال کا محاورہ مختلف ہے مثلاً اگر کہنا ہو ’’تجھ پر واجب (ثابت) ہے کہ …‘‘ تو عربی میں فعل معروف ’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ آئے گا یعنی کہیں گے ’’حقَّ علیکَ أَنْ…‘‘ اور اگر کہنا ہو ’’تیرے لیے درست ہے کہ…‘‘ یا ’’تیرا حق ہے کہ …‘‘ تو فعل مجہول لام (لِ) کے صلہ کے ساتھ آئے گا مثلاً کہیں گے ’’حُقَّ لکَ اَنْ …‘‘

  • قرآن کریم میں یہ فعل (مجرد) لام (لِ)کے صلہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوا۔ بطور فعل لازم اس کے مختلف صیغے (ماضی مضارع) اٹھارہ (۱۸)جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے چار جگہ متعلق فعل جار مجرو ر(علی کے صلہ کے ساتھ)نہیں آیا، باقی مقامات پر ’’علی …‘‘کے ساتھ آیا ہے اور صرف دوجگہ اس فعل سے ماضی مجہول کا صیغہ(حُقَّتْ)آیا ہے۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے ابواب افعال اور استفعال سے بھی کچھ صیغے اور بعض دیگر مشتقات۲۷ جگہ …وارد ہوئے ہیں۔

        کلمہ ’’الحق‘‘ جو مذکور ہ بالا فعل مجرد کا مصدر بھی ہے اور بطور اسم بھی متعدد ملتے جلتے معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ قرآن کریم میں ۲۳۰ دفعہ آیا ہے۔ اور حسب موقع اس کا اردو ترجمہ فعل مجرد کے (مذکورہ بالا) معانی کی روشنی میں کئی طرح کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’’سچ، سچائی، سچا، ٹھیک، درست، حقیقت کے مطابق، انصاف کے مطابق، واجب، حصّہ ، ضرورت، یقینی ثابت اور حق (بمقابلہ باطل)اردو میں مستعمل ہے۔ اس لیے بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’حق‘‘ ہی رہنا دیا ہے۔

[مِنْ رَّبَّھِمْ] یہ ’’مِنْ‘‘ (کی طرف سے)+رَبِّ (پروردگار)+ھِمْ(ان کا) سے مرکب ہے۔ اس میں ’’مِنْ‘‘جزویت یا تبعیضیت کے لیے نہیں بلکہ ’’بیانیہ‘‘ ہے۔ (ضرورت ہو تو مِنْ کے استعمال و معانی کے لیے ۱:۲:۲(۵)دیکھ لیجئے)اس کا ترجمہ’’میں سے‘‘ کی بجائے ’’کی طرف سے‘‘ کی جانب سے‘‘ کیا جائے گا۔ یعنی ’’مِنْ ربِّھمْ ‘‘ کا ترجمہ ’’ان کے رب کی طرف سے یا جانب سے‘‘ہوگا۔ بعض نے بیان اور وضاحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’ان کے ربّ کا کہا‘‘ یا ’’جو نازل ہوئی ان کے ربّ کی طرف سے‘‘اور ’’ان کے رب کی طرف سے کہی ہوئی بات‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ ان تراجم میں ’’کا کہا‘‘، ’’جو نازل ہوئی‘‘ اور ’’کہی ہوئی بات‘‘کے الفاظ کو سیاقِ عبارت اور مفہوم کے لحاظ سے ہی درست کہا جاسکتا ہے ورنہ نص (الفاظ یا اصل عبارت)سے تو ذرا ہٹ کر ہیں۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں