سورۃ البقرہ آیت نمبر ۳۶ اور ۳۷
۲۶:۲ فَاَزَلَّہُمَا الشَّیۡطٰنُ عَنۡہَا فَاَخۡرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیۡہِ ۪ وَ قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿۳۶﴾فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۳۷﴾
۱:۲۶:۲ اللغۃ
۱:۲۶:۲(۱) [فَاَزَلَّھُمَا]یہ دراصل ’’فَ‘‘ (بمعنی پس/ اس کے بعد)+ ’’اَزَلَّ‘‘(جس کے معنی ابھی بیان ہوں گے)+’’ھما‘‘(ضمیر منصوب بمعنی ان دونوں کو) کا مرکب ہے۔
اس میں لفظ ’’اَزَلَّ‘‘ کا مادہ ’’زل ل‘‘اور وزن اصلی ’’اَفْعَلَ‘‘ہے۔ یہ دراصل ’’اَزْلَلَ‘‘تھا۔ پھر لام کی حرکت فتحہ (ـــــَــــ) ماقبل ساکن حرف (ز) کو دے کر دونوں ’’لام‘‘مدغم کر دیئے جاتے ہیں اور یوں لفظ ’’اَزَلَّ‘‘بنا۔
اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’زَلَّ یَزِلُّ زَلَلًا‘‘باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں: ’’پھسلنا، پھسل جانا‘‘۔ یعنی یہ فعل لازم ہے اس کا مفعول نہیں آتا۔ البتہ جس چیز یا جگہ سے ’’پھسلے‘‘ اس کے ساتھ ’’عن‘‘ لگاتے ہیں مثلاً کہیں گے ’’زلَّ عنِ الصوابٍ‘‘(وہ درست بات سے پھسل گیا)۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے صرف ایک صیغہ ماضی (البقرہ:۲۰۹) اور ایک صیغہ فعل مضارع کا (النحل:۹۴) وارد ہوا ہےــــــ
زیرِ مطالعہ لفظ ’’اَزَلَّ‘‘اس مادہ سے بابِ افعال کے فعل ماضی معروف کا پہلا صیغہ ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَزَلَّ …یُزِلُّ اِزلالاً‘‘کے معنی ہیں: ’’…کو پھسلا دینا‘‘اس لیے اس (اَزَلَّ)کا ترجمہ ’’ڈگایا، ہلادیا، ہٹادیا، لغزش دے دی، اکھاڑ دیا اور پھسلادیا‘‘کی صورت میں کیا گیا ہے جن سب کا مفہوم ایک ہے ــ یہ فعل (اَزَلَّ یُزِلُّ) متعدی ہوتا ہے اور اس کا مفعول ہمیشہ بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتا ہے۔ جیسے یہاں ’’ازلھما‘‘ میں ضمیر منصوب ’’ھما‘‘ آئی ہے۔ البتہ جس چیز یا جگہ سے پھسلا دینے یا ڈگانے کا ذکر کرنا ہو تو اس پر ’’عَنْ‘‘ کا صلہ لگتا ہے مثلاًکہیں گے ’’ازَلَّہٗ عَنْ …‘‘ (اس نے اس کو … سے پھسلا دیا)۔ (زیرِ مطالعہ آیت میں اسی لیے آگے ’’عَنْھا‘‘آرہا ہے)۔ قرآن کریم میں اس مادہ سے بابِ افعال کا صرف یہی ایک صیغۂ فعل اسی ایک جگہ آیا ہے۔
[الشَّیْطٰنُ] کے مادہ، وزن اور معنی وغیرہ کی مناسبت پر استعاذہ کی بحث میں بات ہوئی تھی۔ہم یہاں دوبارہ اس کا مختصراً ذکر کئے دیتے ہیں۔
یہ لفظ (شیطان) یا تو ’’شطَن یشطُن شطونًا‘‘(نصر سے) بمعنی ’’بہت دور ہونا‘‘ سے ’’فَیْعَالٌ‘‘ کے وزن پر ہےـ ـ یا پھر ’’شاط یشیط شیطًا (ضرب سے) بمعنی ’’برباد ہونا، (غصہ سے) جل بھن جانا، سے ’’فَعلان‘‘کے وزن پر ہے۔
لفظ ’’شیطان‘‘ (یہ اس کا رسم املائی ہے رسم عثمانی پر بعد میں بات ہوگی) اپنے عربی معنی کے ساتھ اردو (بلکہ بہت سی اسلامی زبانوں) میں مستعمل ہے اس لیے تمام مترجمین نے اس کا ترجمہ یہی (شیطان) کیا ہے۔ اگرچہ یہ لفظ (خصوصاً بصورتِ نکرہ) اور اس کی جمع ’’شیاطین‘‘ متمرد اور سرکش بلکہ ’’سرکشوں کے وڈیرے‘‘کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ تاہم زیرِ مطالعہ عبارت میں یہ لفظ (شیطان) بظاہر قصہ آدم میں مذکور، ’’ابلیس‘‘ (البقرہ:۳۴ یعنی ۱:۲۴:۲(۳)میں)کے لقب یا صفاتی نام کے طور پر آیا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ متعدد جگہ اپنے لغوی اور اصطلاحی معنوں میں (دونوں طرح) استعمال ہوا ہے۔ موقع (سیاق و سباق عبارت) معنی کے تعین میں مدد دیتا ہے۔