اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۲۶ اور ۲۷

۱۹:۲        اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَیَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَیَقُوۡلُوۡنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا ۘ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ ۪ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۲۷﴾ 

۱:۱۹:۲       اللغۃ

[اِنَّ اللّٰہَاِنَّ(بے، شک، یقیناً) +اللہ (تعالیٰ) ـــ اسمِ جلالت (اللہ) کے مادہ و اشتقاق کی بحث ’’بسم اللہ‘‘ میں گزر چکی ہےیعنی۱:۱:۱(۲)میں

۱:۱۹:۲(۱)     [لَا یَسۡتَحۡیٖۤ] میں ’’لَا‘‘ تو نفی (’’نہیں‘‘کے معنی پیدا کرنے) کے لیے ہے۔ ’’ يَسْتحْىٖ ‘‘ کا مادہ ’’ح ی ی‘‘ اور وزن اصلی ’’یَسْتَفْعِلُ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’ يَسْتَحْیِىُ ‘‘تھی۔ جس میں پہلے تو فعل ناقص کے صیغۂ مضارع کی آخری مضموم ’’ی‘‘کو ماقبل مکسور کی وجہ سے ساکن کردیا جاتا ہے(جیسے یَرْمِیُ سے یَرْمِیْ اور یَقْضِیُ سے یَقْضِیْ ہوجاتا ہے)۔اس طرح اس فعل مضارع کے آخر پر ایک یائے مکسورہ اور اس کے بعد ایک یائے ساکنہ ہے۔ جسے ’’یِییْ‘‘ کی شکل میں لکھا جانا چاہئے تھا(یعنی بصورت ’’یَسْتَحْیِیْ‘‘) مگر قرآن کریم میں اسے صرف ایک ’’یاء‘‘ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ پھر ضبط کے ذریعے اس محذوف ’’ی‘‘ کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ (یعنی اس محذوف کو پڑھا ضُرور جاتا ہے)۔ اس پر مزید بحث ’’الرسم‘‘ اور ’’الضبط‘‘کے عنوان کے تحت ہوگی

اس مادہ (ح ی ی)سے فعل ثلاثی مجرد ’’حُیَّ یَحْیٰی حیاۃً‘‘(باب سمع سے) آتا ہے اور جو دراصل حَیِیَ یَحْیَیُ تھا پھر اس سے (۱) حَیِیَ یَحْیٰی بنا۔ جس میں ادغام (’’ی‘‘ کے دو دفعہ مضاعف ہونے کی وجہ سے) کرکے (۲) ’’حَیَّی یَحَییُّ‘‘ مَسَّ یَمَسُّ کی طرح) بھی استعمال کرتے ہیں اور صرف ماضی ادغام کے ساتھ اور مضارع بغیر ادغام کے بھی استعمال کرتے ہیں یعنی (۳)’’حَیَّی یَحْییٰ‘‘بولتے ہیں۔ اور قرآن کریم میں یہی آخری (تیسری) صورت (حَییَّ یَحْییٰ) استعمال ہوئی ہے۔ (الانفال:۴۲)۔ بعض قبائل عرب صیغۂ ماضی کو حَیِیَ (بروزن خَشِیَ و رَضِیَ)ہی استعمال کرتے ہیں اور ان تینوں صورتوں میں اس فعل مجرد کے معنی ہیں ’’زندگی پانا، زندہ ہونا، جاندا رہونا، حیات (زندگی) والا ہونا‘‘ ـــ عربی زبان میں حَیِیَ یَحْییٰ حَیَاءً‘‘ شر مانا، حیاء کرنا کے معنی میں بھی آتا ہے مگر ان معنی کے لیے یہ فعل (ثلاثی مجرد) قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔ (مزید فیہ سے یہ معنی آئے ہیں جن پر ابھی بات ہوگی) ـــ اس فعل (ثلاثی مجرد)سے ماضی کا صیغۂ تثنیہ ’’حَیَا‘‘ہوگا اور صیغۂ جمع مذکر غائب ’’حَیُّوا‘‘ کے علاوہ ’’حَیُوْا‘‘ (یاء کی تخفیف کے ساتھ رَضُوْا اور خَشُوْا کی طرح)بھی استعمال کیا جاتا ہیں ـ  قرآن کریم میں اس مادہ (ح ی ی)سے فعل مجرد کے مختلف صیغے سات جگہ آئے ہیں، اس کے علاوہ مزید فیہ کے بعض ابواب(اِفعال، تفعیل اور استفعال)سے مختلف صیغے ۶۳ جگہ اور اور اس مادہ سے متعدد اسماء مشتقہ اور مصادر وغیرہ سو(۱۰۰) سے زائد مقامات پر آئے ہیں۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں