اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ  البقرہ آیت نمبر ۲۰

  یَکَادُ الۡبَرۡقُ یَخۡطَفُ اَبۡصَارَہُمۡ ؕ کُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَہُمۡ مَّشَوۡا فِیۡہِ ٭ۙ وَ اِذَاۤ اَظۡلَمَ عَلَیۡہِمۡ قَامُوۡا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَذَہَبَ بِسَمۡعِہِمۡ وَ اَبۡصَارِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿٪۲۰﴾

۱:۱۵:۲     اللغۃ

۱:۱۵:۲(۱)     [یَکَادُ ] کا مادہ ’’ک و د‘‘ اور وزن اصلی ’’یَفْعَلُ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’یَکْوَدُ‘‘ تھی جس میں حرف علت (و) کی حرکت(ـــــَــــ) اس کے ماقبل حرف صحیح (ک) کو دی جاتی ہے اور پھر یہ (و) اپنے سے ماقبل کی حرکت  فتحہ    (ــــــَــــ) کے موافق حرف (الف) میں بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے۔ تعلیل کے بعد اب اس کا وزن ’’یَفالُ‘‘ رہ گیا ہے۔

        اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’کادَ یکُوْد کَوْدًا‘‘(باب نصر سے) بمعنی ٔ  ’’مَنَع‘‘(روکنا)آتا ہے۔ تاہم اس باب سے اس فعل کا کوئی صیغہ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہواـــ زیادہ تر یہ باب سمِعَ سے ’’کاد یکادکَوْدًا‘‘(دراصل کوِدَ یَکْوَدُ)آتا ہے اور یہ افعال مقاربہ میں سے ہے۔ یعنی یہ ایک طرح کا فعل ناقص ہے جس کا ’’اسم‘‘ مرفوع اور ’’خبر‘‘ ہمیشہ کوئی فعل مضارع مرفوع (یا کبھی کبھار منصوب ’’بأن‘‘)ہوتا ہے۔ اور یہ کسی فعل کے ہونے یا نہ ہونے کے بس قریب ہی آلگنے کا پتہ دیتا ہے اور اس کے استعمال کے کچھ مقرر قواعد ہیں۔[1]    اور خود یہ فعل (کاد) ماضی مضارع مثبت منفی ہر طرح کے معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’کاد یفعَلُ‘‘(وہ کرنے ہی لگا تھا) یا ’’یَکادُ یفعَل‘‘ (وہ کرنے ہی لگا ہے)، ’’مَا کاد یفعل‘‘ (لگتا نہیں تھا کہ کرے گا) اور ’’اَن‘‘ لگا کر اسے ’کاد  یا مَاکادَ أن یفعَلَ‘‘بھی کہہ سکتے ہیں تاہم قرآن ِکریم میں یہ (أنْ   والااستعمال کہیں نہیں آیا۔ یہاں آیت زیر مطالعہ میں ’’ یکاد‘‘ کی خبر ’ یَخۡطَفُ ‘‘ہے جس کے معنی پر ابھی بات ہوگی۔

  • کبھی یہ فعل (کَاد) ’’اَراد‘‘(ارادہ کرنا) کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے مگر جس فعل(کام) کا ارادہ ہو اس کا بھی فعل مضارع ہی اس (کاد یکاد)کے ساتھ اسی طرح استعمال ہوتا ہے جیسا کہ بطور فعل مقارب (اس کے ساتھ) آتا ہے اس استعمال کی صرف ایک مثال آگے چل کر (طہ:۱۵) آئے گی۔

[الۡبَرۡقُ  ] کے مادہ اور معنی (بجلی کی چمک)وغیرہ پر ابھی اوپر [۱:۱۴:۲(۵)] میں بات ہوچکی ہے۔

۱:۱۵:۲(۲)     [یَخۡطَفُ ]  کا مادہ ’’خ ط ف‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُ‘‘ ہے ۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’خطِف… یَخطَفُ خَطْفًا‘‘ (باب سمع سے) اور ’’ خطَف… یخطِف خَطْفًا ‘‘(باب ضرب سے) بھی آتا ہے اور شاذ ’’ خطَف… یخطُف ‘‘(باب نصر سے)بھی آتا ہے اور تینوں کے ایک مشترک معنی ’’…کو اچک لینا، …کو جھپٹ لینا، …کو چھین لینا‘‘ ہوتے ہیں

_____________________________

  [1] جو اگر مستحضر (یاد) نہ ہوں تو نحو کی کسی کتاب سے ’’افعال مقاربۃ‘‘ کے بیان میں دیکھ لیجئے۔

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں