اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۷ اور ۱۸

۱۳:۲       مَثَلُہُمۡ کَمَثَلِ الَّذِی اسۡتَوۡقَدَ نَارًا ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوۡرِہِمۡ وَ تَرَکَہُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ ﴿۱۷﴾صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾ 

۱:۱۳:۲     اللغۃ

۱:۱۳:۲(۱)    [مَثَلُہُمۡ ] یہ مَثَلُ (جس پر ابھی بات ہوگی) +ھم (ضمیر مجرور بمعنی ’’…ان کی‘‘) کا مرکّب ہے۔ اس میں لفظ ’’مَثَلٌ ‘‘ (جو عبارت میں مضاف ہونے کے باعث خفیف ہوکر ’’مَثَلُ‘‘ رہ گیا ہے) کا مادہ ’’م ث ل‘‘ اور وزن ’’فَعَلٌ ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’مثَل یمثُل مُثُولًا‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ’’سیدھا کھڑا ہونا اور … کی مانند ہوجانا‘‘ ہوتے ہیں۔ اور صلہ (عموماً ’’باء‘‘) کے ساتھ یہ بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل مجرد کا کوئی صیغہ استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ اس مادہ (مثل) سے فعل کا تو صرف ایک ہی صیغہ باب ’’تفعّل‘‘ سے صرف ایک جگہ (مریم:۱۶) آیا ہے۔ البتّہ اسماء کی مخلتف صورتیں مثلاً: ’’مَثَلٌ، مِثْلٌ، اَمْثَلٌ، مُثْلٰی اور تَمَاثِیْل‘‘ وغیرہ متعدد مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ ان کا بیان اپنی اپنی جگہ پرآئے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ

  • لفظ ’’مَثَلٌ‘‘ (جو قرآن کریم میں ستر (۷۰)کے قریب مقامات پر آیاہے) کے بنیادی معنی ہیں: ’’کسی (ایک) چیز کا حال کسی دوسری ملتی جُلتی چیز کے حوالے سے اس طرح بیان کرنا جس سے اس پہلی چیز کی وضاحت ہوجائے‘‘۔ اسی بنا پر اس لفظ (مَثَلَ) کا ترجمہ ’’مثال، حال، بیان، بات، کہاوت، صفت اور حالت‘‘ کے علاوہ ’’عبرت‘‘اور ’’علامت‘‘ سے بھی کیا جاتا ہے۔

۱:۱۳:۱(۲)     [کَمَثَلِ ] لفظ ’’مثل‘‘ کے بارے میں ابھی اوپر ضروری وضاحت کردی گئی ہے۔ لفظ ’’کاف‘‘ (کَ…) جو یہاں ’’مثل‘‘ سے پہلے آیا ہے۔ یہ ایک مشہور حرف الجر ہے جو (۱) زیادہ ترتشبیہ کے لیے آتا ہے۔ اس وقت اس کا اردو ترجمہ ’’…کی مانند، …جیسا‘‘ ہوتا ہے جیسے ’’ھُوَ کالأ سدِ‘‘ (وہ شیر جیسا ہے) میں ـــ (۲) کبھی یہ کسی کی حالت یا صفت بتانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس وقت اس کا اردو ترجمہ ’’بطور… (ہونے) کے‘‘یا ’’بحیثیت…کے ‘‘ سے کرنا پڑتا ہے مثلاً ’’اشتھرَ کَمُعَلَّمٍ کَبیرٍ‘‘ (وہ بطور ایک بڑا استاد ہونے کے (کی حیثیت سے) مشہور ہوا)میں ـ (۳) کبھی یہ ’’مَا‘‘ موصولہ کے شروع میں لگ کر ایک لفظ ’’کَمَا‘‘کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت اس کا اردو ترجمہ ’’اس لیے کہ‘‘ اور ’’جس طرح سے کہ‘‘ کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ تعلیل (سبب بتانے) کے معنی دیتا ہے۔ اس استعمال کی بعض مثالیں گزر چکی ہیں (مثلاً البقرہ:۱۳میں) اور بہت سی آگے ہمارے سامنے آئیں گی۔ (۴) کبھی یہ (کاف الجر) ’’زائد‘‘ ہوتا ہے مگر دراصل اس سے تاکید اور زور کے معنی پیدا ہوتے ہیں مثلاً ’’لیس کَمِثلہ شَیئٌ‘‘ میں جو دراصل تو ’’لیس شَیْیٌ مثلَہ‘‘ (کوئی چیز اس کی مانند نہیں) تھا مگر ’’مِثْلہ‘‘ پر کاف الجر لگنے سے اب معنی ’’اس کی تو مثال کی سی بھی کوئی شے نہیں‘‘ ہوں گے یعنی ’’مانند‘‘ تو درکنار ’’مانند سے ملتی جلتی‘‘ بھی کوئی چیز نہیں ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں