اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ
  • تاہم بہت سے مترجمین نے ’’ مَآ اُنْزِلَ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’جو اترا/نازل ہوا‘‘ یا ’’جو کتاب اتری/نازل ہوئی‘‘ سے کیا ہے۔ یعنی فعل ’’متعدی مجہول‘‘ کا ترجمہ ’’لازم معروف‘‘ (نزل)کی طرح کردیا ہے۔ اسے اردو محاورے کی بنا پر مفہوم ادا کرنے کے لئے ہی درست سمجھا جاسکتا ہے۔ورنہ یہ اصل الفاظ نص(عبارت) سے ضرور ہٹا ہوا ہے کیونکہ اس میں نائب الفاعل کو(جودراصل مفعول ہوتا ہے)فاعل بنا دیاگیا ہے۔

۱:۳:۲(۳)     [الیک]یہ حرف الجر ’’إلٰی‘‘ اور ضمیر مجرور ’’ کَ‘‘ کا مرکب ہے۔ اس ترکیب میں اسے ’’اِلَاکَ‘‘ پڑھنے کی بجائے یا ئے لینہ کے ساتھ ’’اِلَیکَ‘‘ پڑھتے ہیں [دیکھئے سورۃ الفاتحہ میں ’’ عَلَیھِم‘‘ کا بیان۱:۶:۱(۳)]یہاں بھی صرف چند مترجمین نے ’’ اِلَیْکَ‘‘ کا درست لفظی ترجمہ ’’تیری /آپ کی /تمہاری /طرف‘‘ سے کیا ہے۔ بیشتر نے اس کا ترجمہ ’’آپ/تجھ/تم/پر‘‘ کر دیا ہے جو ظاہر ہے’’إِلٰی‘‘ کا نہیں بلکہ ’’ عَلٰی ‘‘ کا ترجمہ ہے۔ مفہوم درست سہی مگر اس کے لئے اصل لفظی ترجمہ سے ہٹنے کا کوئی تقاضا بھی تو موجود ہونا چاہئے۔

            [وَمَآ اُنْزِلَ]یہ پہلے (مذکور بالا) ’’ بِمَا اُنْزِلَ ‘‘ کی طرح ہے۔ یہاں بھی بیشتر مترجمین نے ’’اُنزِلَ‘‘ کا ترجمہ ’’نزَلَ‘‘ کی طرح کردیا ہے جو محاورے کی کسی سخت مجبوری کے بغیر قرآن کے الفاظ (نص) سے بظاہر تجاوز ہی بنتا ہے۔ اگرچہ اس سے مفہوم اور معنی میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی۔

۱:۳:۲ (۴)     [مِنْ قَبْلِكَ]یہ ’’مِن‘‘ (حرف جار بمعنی ’’سے‘‘)+ قبل (ظرف بمعنی ’’پہلے‘‘ + ’’ک‘‘ (ضمیر مجرور بمعنی ’’تجھ‘‘) کا مرکّب ہے۔ ان (تین کلمات) میں سے لفظ ’’قَبْل‘‘ کا مادہ ’’ق ب ل‘‘ اور وزن ’’ فَعْلٌ‘‘ ہے۔(اگرچہ تنوین کے ساتھ اس کا استعمال شاذ ہے)۔ یہ (ق ب ل) ایک ایسا مادہ ہے جس سے ثلاثی مجرد اور مزید فیہ کے کئی ابواب سے متعدد افعال (کے صیغے) قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔ تاہم یہ فعل والی بحث توہم اس مادہ سے کسی فعل کے استعمال کے موقع پر کریں گےـــ (اور یہ موقع البقرہ:۴۸ میں پہلی دفعہ آئے گا)۔ البتہ لفظ ’’قبل‘‘ کے استعمال کے متعلق چند امور کا ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتاہے:۔

(۱)        لفظ ’’قَبل‘‘ کے معنی ’’پہلے‘‘(بعد کی ضد) ہیں۔ یہ لفظ ظرف ہے کیونکہ اس میں وقت یا جگہ (زمان یا مکان سابق) کے معنی موجود ہیں اور یہ عموماً مضاف ہو کر آتا ہے۔ اپنے مضاف الیہ سے پہلے یہ ہمیشہ منصوب (قبلَ) آتا ہے مثلاً ’’قبلَ الفَجر‘‘(فجر سے پہلے) یا قبلَ المسجد(مسجد سے پہلے) (۲) اور اگر اس سے پہلے کوئی حرف جار آجائے (جو عموماً ’’من‘‘لگتا ہے) تو یہ مضاف (قَبْل) مجرور ہوجاتا ہے مثلاً ’’ مِنْ قَبْلِ الْفَجْرِ‘‘(معنی وہی ’’فجر سے پہلے‘‘ہی رہے گا)۔(۳) اور اگر اس (قبل) کا مضاف الیہ مذکور نہ ہو (یعنی یہ نہ بتا یا گیا ہو کہ کس سے پہلے) تو یہ لفظ (قبلُ) مبنی برضمہ (ہر حالت میں ضمہ) (ـــــُـــــ) پر ختم ہونے والا) ہوتا ہے چاہے شروع میں حرف الجر بھی کیوں نہ ہوـ بلکہ اس صورت میں (مضاف الیہ مذکور نہ ہونے کی صورت میں) اس سے پہلے ’’مِن‘‘ ضرور آتا ہےـــمثلاً مِنْ قبلُ ـــ اس صورت میں اس کا ترجمہ ’’پہلے ہی‘‘ یا ’’پہلے بھی‘‘ سے بھی کیا جاتا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں