اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

۳:۱:۲     الرسم

      الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ 

            (الم) کی کتابت اس کے تلفظ سے مختلف ہے۔ اس میں لام اور میم کو ملا کر (لم) لکھا جاتا ہے۔ (الف تو اپنے ما بعد کے ساتھ ملا کر لکھا جاسکتا ہی نہیں)۔ نہ تو اسے حروف تہجی کی طرح الگ الگ (ال م) لکھا جاتا ہے۔ (جیسے ہم مادہ کے حروف بتاتے وقت لکھتے آرہے ہیں)۔ اور نہ ہی اسے تلفظ کے مطابق (الف لام میم) لکھا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں تمام حروف مقطعات (جو بعض سورتوں کی ابتدأ میں آئے ہیں) کے لکھنے کا طریقہ یہی ہے اور یہ رسمِ عثمانی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لئے ان کا تلفظ شفوی (زبانی) تعلیم پر منحصر ہے۔

۳:۱:۲(۱)     [ذٰلِكَ] ہمیشہ بحذف الف لکھا جاتا ہے۔ یعنی ’’ذ‘‘ کے بعد الف نہیں لکھاجاتا۔ اگرچہ پڑھا ضرور جاتا ہے ـ   نہ صرف قرآن کریم میں ہر جگہ بلکہ عام عربی املاء (رسم قیاسی) میں بھی ہمیشہ یہ لفظ ’’ذلک‘‘اسی املاء (بحذف الالف بین الذال واللام) سے لکھاجاتا ہے چاہے یہی شکل (ذلک) ہو یا اس کے آخر کا کافِ خطاب ضمیر مخاطب کی کسی شکل میں آئے مثلاً ذَلِکُما، ذَ لِکُم، ذَ لِکُن کی صورت میں۔ اس لفظ کی یہ املاء رسم عثمانی کے مطابق ہے اور عربی املاء میں رسمِ عثمانی کے اثرات کا ایک مظہر ہےـــ عربی زبان میں متعدد ایسے کلمات ہیں جن کی املاء آج بھی ان کے تلفظ کے مطابق نہیں بلکہ رسمِ عثمانی کے مطابق غیر قیاسی ہے۔ اس کی مثالیں اسماء اشارہ میں زیادہ ملتی ہیں۔ مثلاً ’’ھاذا‘‘ کی بجائے ’’ھذا‘‘، ’’ھااُلائِ‘‘ کی بجائے ’’ھؤلائِ‘‘ اور ’’اُلَائِک‘‘ کی بجائے ’’اُولٰئِکَ‘‘ لکھتے ہیں۔ قرآن میں بھی اور قرآن سے باہر بھی۔ اس قسم کی کئی مثالیں ہمارے سامنے آئیں گی۔

۳:۱:۲(۲)الْكِتٰبُ] کے شروع میں تو ہمزہ الوصل (لام تعریف کا) ہے اس لئے ’’ذلک‘‘ کے ’’ کَ‘‘ کو الکتاب کے ’’لْ‘‘ سے ملا کر پڑھا جاتا ہےـــ ائمۂِ رسم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ لفظ (کتاب) قرآن کریم میں ہمیشہ بحذف الف (کتب) لکھا جاتا ہے یعنی ’’ت‘‘ کے بعد ’’ا‘‘ نہیں لکھاجاتا۔ تاہم پڑھا ’’ کتاب‘‘ ہی جاتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ڈھائی سو (۲۵۰) سے زیادہ دفعہ آیا ہےـــ ان میں سے صرف چار مقررہ مقامات پر (الرعد: ۳۸، الحجر:۴، الکھف:۲۷اور النمل:۱)  اسے باثبات الف (کتاب) لکھا جاتا ہے باقی سب جگہ اسے بحذف الف ہی لکھاجاتا ہے۔ نکرہ ہو یا معرفہ، مفرد ہو یا کسی ترکیب میں آرہا ہو۔  [1] عا م عربی املاء میں اسے ہمیشہ باثبات الف (کتاب) لکھتے ہیں۔

            (لَا رَيْبَ   فِيْهِ) کی املاء عام (قیاسی) املاء ہے۔

________________________

[1]   صرف صاحب نثرالمرجان نے ’’خزانۃ الرسوم‘‘ کے حوالے سے ایک پانچویں مقام پر بھی اثبات الف کا ذکر کیا ہے یعنی البقرہ:۱۰۱ میں۔ تاہم علم الرسم کی کسی اور کتاب میں یہ بات بیان نہیں ہوئی۔

 

 

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں