اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

{مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾} 

[ مَثَلُ الَّذِیْنَ : ان لوگوں کی مثال جو] [یُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں ] [اَمْوَالَہُمْ : اپنے مالوں کو ] [فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں ] [کَمَثَلِ حَبَّۃٍ : ایک ایسے دانے کی مثال کی طرح ہے ] [اَنْبَتَتْ : جس نے اگائے ] [سَبْعَ سَنَابِلَ : سات خوشے ] [فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ : ہر ایک خوشے میں] [مِّائَۃُ حَبَّۃٍ : ایک سو دانے ہیں ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [یُضٰعِفُ : ضرب دیتا ہے (انفاق کو) ] [لِمَنْ : اس کے لیے جس کے لیے] [ یَّشَآءُ: وہ چاہتا ہے] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [وَاسِعٌ : وسعت دینے والا ہے ] [عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے ]

 س ب ع

 سَبَعَ (ف) سَبْعًا : ساتواں حصہ لینا (کسی چیز کو سات حصوں میں تقسیم کر کے) ۔

 سَبْعٌ (اسم عدد بھی ہے) : سات۔{لَہَا سَبۡعَۃُ اَبۡوَابٍ ؕ} (الحجر:44) ’’ اس کے سات دروازے ہیں۔‘‘

 سَبْعُوْنَ : ستر۔ {اِنۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ سَبۡعِیۡنَ مَرَّۃً فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ؕ } (التوبۃ:80) ’’ اگر آپؐ استغفار کریں ان کے لیے ستر مرتبہ تو (بھی) ہرگز نہیں بخشے گا اللہ ان کو۔‘‘

 سَبُعٌ (اسم ذات) : درندہ (کیونکہ وہ اپنے شکار کو پھاڑ کر ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے) ۔ {وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ} (المائدۃ:3) ’’ اور جس کو کھایا درندے نے۔‘‘

س ن ب ل

 سَنْبَلَ (رُباعی) سَنْبَلَۃً : کھیتی کا بالیاں نکالنا۔

 سُنْبُلٌ ج سَنَابِلُ (اسم ذات) : پودے کی بال‘ خوشہ۔ {فَمَا حَصَدۡتُّمۡ فَذَرُوۡہُ فِیۡ سُنۡۢبُلِہٖۤ} (یوسف:47) ’’ پس جو تم لوگ کاٹو تو چھوڑ دو اس کو اس کے خوشے میں۔‘‘{وَّ سَبۡعَ سُنۡۢبُلٰتٍ خُضۡرٍ} (یوسف:43) ’’ اور سات سبز بالیاں (خوشے) ۔‘‘

 ترکیب :’’ کَمَثَلِ‘‘ کا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے ’’ حَبَّۃٍ‘‘ مجرور ہے۔ ’’ اَنْبَتَتْ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھِیَ‘‘ کی ضمیر ہے جو’’ حَبَّۃٍ‘‘ کے لیے ہے‘ جبکہ مرکب اضافی ’’ سَبْعَ سَنَابِلَ‘‘ اس کا مفعول ہے۔ اس لیے اس کا مضاف ’’ سَبْعَ‘‘ منصوب ہے اور مضاف الیہ ’’ سَنَابِلَ‘‘ حکماً مجرور ہے۔ ’’ مِائَۃُ حَبَّۃٍ‘‘ مبتدأ مؤخر ہے اس لیے مضاف ’’ مِائَۃُ‘‘ مرفوع ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے اور ’’ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ‘‘ قائم مقام خبر مقدم ہے۔’’ یُضٰعِفُ‘‘ کا مفعول محذوف ہے جو کہ ’’ اِنْفَاقًا‘‘ ہو سکتا ہے ‘ جبکہ ’’ لِمَنْ‘‘ متعلق فعل ہے۔

 نوٹ (1) : لفظ’’ مِائَۃٌ‘‘ میں الف زائدہ ہے جیسے ’’ اُولٰٓـئِکَ‘‘ میں وائو زائدہ ہے۔ چند الفاظ میں حروف ِزائدہ لکھنے کی وجہ سمجھ لیں۔

 صحابہ کرامؓ  کے زمانے میں بھی اور آج بھی عربی حرکات و سکنات کے بغیر لکھی اور پڑھی جاتی ہے ‘ جیسے فارسی اور اردو حرکات و سکنات کے بغیر لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ البتہ غیر عربی لوگوں کی سہولت کے لیے بعد میں قرآن مجید میں حرکات و سکنات لکھنے کا رواج ہوا۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں