{وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ اَخۡرَجُوۡکُمۡ وَ الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ ۚ وَ لَا تُقٰتِلُوۡہُمۡ عِنۡدَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوۡکُمۡ فِیۡہِ ۚ فَاِنۡ قٰتَلُوۡکُمۡ فَاقۡتُلُوۡہُمۡ ؕ کَذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۹۱﴾}
[ وَاقْـتُلُوْھُمْ : اور تم لوگ قتل کرو ان کو ] [ حَیْثُ : جہاں کہیں ] [ ثَقِفْتُمُوْھُمْ : تم لوگ پائو ان کو ] [ وَاَخْرِجُوْھُمْ : اور نکالو ان کو ] [ مِّنْ حَیْثُ : جہاں سے ] [ اَخْرَجُوْکُمْ : انہوں نے نکالا تم کو] [ وَالْفِتْنَۃُ : اور آزمائش (دین میں ] [ اَشَدُّ : زیادہ شدید ہے] [ مِنَ الْقَتْلِ : قتل سے ] [ وَلَا تُقٰتِلُوْ: اور تم لوگ جنگ مت کرو] [ ھُمْ : ان سے ] [ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام کے پاس] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ] [ یُقٰتِلُوْکُمْ : وہ لوگ جنگ کریں تم سے] [ فِیْہِ : اس میں ] [ فَاِنْ : پس اگر قٰتَلُوۡکُمۡ : وہ لوگ جنگ کریں تم سے (اس میں) ] [ فَاقْتُلُوْھُمْ : تو تم لوگ قتل کرو ان کو (اس میں) ] [ کَذٰلِکَ : اس طرح] [ جَزَآئُ الْـکٰفِرِیْنَ : کافروں کی جزا ہے]
ث ق ف
ثَقِفَ (س) ثَقَفًا : (1) مہارتِ نگاہ سے کسی چیز کا ادراک کرنا‘ کسی چیز کو پا لینا۔ آیت زیر مطالعہ۔ (2) کامیاب ہونا‘ کسی کو جا پکڑنا۔{اِنۡ یَّثۡقَفُوۡکُمۡ یَکُوۡنُوۡا لَکُمۡ اَعۡدَآءً} (المُمتحنۃ:2) ’’ اگر وہ لوگ پکڑ پائیں تم کو تو وہ لوگ ہو جائیں گے تمہارے دشمن۔‘‘
ترکیب: اس آیت میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیریں گزشتہ آیت کے ’’ اَلَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَـکُمْ‘‘ کے لیے ہیں۔’’ اَلْفِتْنَۃُ‘‘ مبتدأ ہے اور اس کے بعد ’’ فِی الدِّیْنِ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ اَشَدُّ‘‘ تفضیل بعض ہے اور خبر ہے۔’’ فِیْہِ‘‘ میں ’’ ہُ‘‘ کی ضمیر مسجدِ حرام کے لیے ہے۔ ’’ فَاِنْ قٰـتَلُوْکُمْ‘‘ کے بعد ’’ فِیْہِ‘‘ محذوف ہے۔ ’’ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ‘‘ مرکب اضافی ہے اور مبتدأ مؤخر ہے۔
نوٹ (1) : مَکّہ میں مسلمان کمزور تھے تو انہیں حکم دیا گیا تھا کہ مخالفین کے ظلم پر صبر کریں اور ثابت قدم رہیں۔ اس حکم میں پہلی ترمیم سورۃ الحج کی آیت 39 میں نازل ہوئی جس میں مخالفین سے جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے بعد مذکورہ بالا آیات (190‘191) میں ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘ لیکن بچوں‘ بوڑھوں‘ عورتوں اور زخمیوں پر ہاتھ اٹھانے ‘ کھیتوں اور مویشیوں کو تباہ کرنے اور اسی قسم کے دوسرے وحشیانہ افعال کی اجازت نہیں ہے۔ یہ سب ’’ زیادتی کرنے‘‘ کی تعریف میں آتے ہیں اور حدیث میں ان سب کی ممانعت آئی ہے۔
نوٹ (2) : بات جنگ کرنے کے حکم سے شروع ہوئی ہے۔ اس لیے ’’ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ‘‘ کے حکم کا اطلاق ان لوگوں پر ہو گا جن کے خلاف اعلانِ جنگ ہو اور جو جنگ میں حصہ لے رہے ہوں۔ عام حالات میں کسی غیر مسلم پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔ جزیرہ نمائے عرب کے باہر مفتوحہ علاقوں میں خلفاء راشدین کا طرزِ عمل اس بات کی سند ہے۔
نوٹ (3) : فتنہ ایک کثیر المعانی لفظ ہے۔ اس آیت میں یہ لفظ جس مفہوم میں استعمال ہوا ہے‘ اسے سمجھ لیں۔ کوئی قوم رائج الوقت نظریات کی جگہ اپنے عقائد و نظریات سے اپنے نظامِ حیات کی اصلاح کی جب کوشش کرتی ہے تو رائج الوقت نظریات کے ٹھیکیدار اس کا مقابلہ بالعموم دلائل کے بجائے جبر سے کرتے ہیں۔ یہ جبر خواہ معاشی ناکہ بندی (sanctions) کی شکل میں ہو‘ ہتھیاروں کے استعمال کی شکل میں ہو یا تشدد (persecution) کی کوئی بھی شکل ہو‘ ان سب کو یہاں فتنہ کہا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فتویٰ یہ ہے کہ persecution قتل سے زیادہ گھنائونا جرم ہے‘ اس لیے اس نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ persecution کے مقابلے کے لیے جوابی کارروائی کریں‘ خواہ اس کے لیے ہتھیار ہی کیوں نہ اٹھانے پڑیں ۔ اس جوابی کارروائی کو دہشت گردی قرار دینا ذہنی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے۔"