{فَمَنۡۢ بَدَّلَہٗ بَعۡدَ مَا سَمِعَہٗ فَاِنَّمَاۤ اِثۡمُہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ یُبَدِّلُوۡنَہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۸۱﴾ؕ}
[ فَمَنْ : پس جس نے ] [ بَدَّلَـہٗ : تبدیل کیا اس کو] [ بَعْدَ مَا : اس کے بعد کہ جو] [ سَمِعَہٗ : اس نے سنا اس کو ] [ فَاِنَّمَا : تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] [ اِثْمُہٗ : اس کا گناہ ] [ عَلَی الَّذِیْنَ : ان لوگوں پر ہے جو] [ یُبَدِّلُوْنَـہٗ: تبدیل کرتے ہیں اس کو ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ] [ سَمِیْعٌ: سننے والا ہے ] [ عَلِیْمٌ: جاننے والا ہے]
ترکیب : ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔’’ بَدَّلَـہٗ بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ‘‘ شرط ہے اور ’’ فَاِنَّمَا‘‘ سے ’’ یُبَدِّلُوْنَہٗ‘‘ تک جوابِ شرط ہے۔’’ بَدَّلَـہٗ ‘ سَمِعَہٗ اور یُبَدِّلُوْنَہٗ ‘‘ میں’’ ہٗ‘‘ کی مذکر ضمیریں’’ اَلْوَصِیَّۃُ‘‘ کے لیے آئی ہیں جو کہ مؤنث ہے۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے لیکن سیاق و سباق کا تقاضا ہے کہ ان ضمیروں کو ’’ اَلْوَصِیَّۃُ‘‘ کے لیے ہی مانا جائے۔ اس کا جواز تلاش کرنے سے بہتر ہے کہ اس صورت حال کو ہم قرآن مجید کے ایک استثناء کے طور پر قبول کر لیں۔ ’’ اِثْمُہٗ‘‘ میں ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر’’ بَدَّلَ‘‘ کے مصدر’’ تَـبْدِیْلٌ‘‘ کے لیے ہے۔"
{فَمَنۡ خَافَ مِنۡ مُّوۡصٍ جَنَفًا اَوۡ اِثۡمًا فَاَصۡلَحَ بَیۡنَہُمۡ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۸۲﴾٪}
[ فَمَنْ : پس جس کو ] [ خَافَ : اندیشہ ہو] [ مِنْ مُّوْصٍ : کسی وصیت کرنے والے سے] [ جَنَفًا : جانبداری کا] [ اَوْ اِثْمًا : یا کسی گناہ کا] [ فَاَصْلَحَ: پھر اس نے درست کردیا (یعنی دستور کے مطابق کر دیا) ] [ بَیْنَھُمْ : ان لوگوں کے مابین] [ فَلَا اِثْمَ : تو کوئی گناہ نہیں ہے] [ عَلَیْہِ: اس پر ] [ اِنَّ اللّٰہَ: یقینا اللہ] [ غَفُوْرٌ: بےانتہا بخشنے والا ہے] [ رَّحِیْمٌ: ہمیشہ رحم کرنے والا ہے]
ج ن ف
جَنِفَ (س) جَنَفًا : راستہ سے ہٹ جانا‘ فیصلے میں جانبداری کرنا۔
جَنَفٌ (اسم ذات): جانبداری‘ معروف سے انحراف۔ آیت زیر مطالعہ۔
تَجَانَفَ (تفاعل) تَجَانُفًا : کسی کی طرف مائل ہونا‘ جھکنا۔
مُتَجَانِفٌ(اسم الفاعل) : مائل ہونے والا‘ جھکنے والا ۔ {فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ…} (المائدۃ:3) ’’ پس جو لاچار ہوجائے بھوک میں جھکنے والا نہ ہوتے ہوئے گناہ کی طرف…‘‘
ترکیب : ’’ مَنْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ خَافَ‘‘ سے ’’ بَیْنَھُمْ‘‘ تک شرط ہے اور ’’ فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ‘‘ جوابِ شرط ہے۔’’ مِنْ مُّوْصٍ‘‘ متعلق فعل ہے ‘ جبکہ ’’ جَنَفًا‘‘ اور’’ اِثْمًا‘‘ دونوں ’’ خَافَ‘‘ کے مفعول ہیں۔’’ فَاَصْلَحَ‘‘ کا مفعول’’ اَلْوَصِیَّۃُ‘‘ محذوف ہے۔’’ بَیْنَھُمْ‘‘ میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ان لوگوں کے لیے ہے جن کے لیے وصیت کی گئی ہے۔ ’’ اِثْمَ‘‘ سے پہلے لائے نفی ٔجنس ہے۔
نوٹ (1) : اگر کسی وصیت میں جانبداری کا پہلو ہو تو گواہوں کی طرف سے اس میں اصلاح کی کوشش وصیت تبدیل کرنے کے ضمن میں نہیں آئے گی ‘ جس کی گزشتہ آیت میں ممانعت کی گئی ہے۔ البتہ گواہوں کو خود وصیت میں اصلاح کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اگر موقع ہو تو وصیت سنتے وقت وصیت کرنے والے کو اس میں اصلاح پر آمادہ کرے۔ بصورتِ دیگر وصیت صحیح بیان کرنے کے بعد وارثوں کی باہمی رضامندی سے اس میں اصلاح کرائے۔"