اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

{کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۵۱﴾ؕۛ} 

(کَمَا : جیسا کہ ) (اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا ) (فِیْکُمْ : تم لوگوں میں) (رَسُوْلًا: ایک ایسا رسول) (مِّنْکُمْ : تم لوگوں میں سے) (یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ : جو پڑھ کر سناتا ہے تم لوگوں کو) (اٰیٰتِنَا : ہماری آیات) (وَیُزَکِّیْکُمْ: اور جو تزکیہ کرتا ہے تم لوگوں کا) (وَیُعَلِّمُکُمُ : اور جو تعلیم دیتا ہے تم لوگوں کو) (الْکِتٰبَ : احکام کی ) (وَالْحِکْمَۃَ : اور حکمت کی ) (وَیُعَلِّمُکُمْ : اور جو تعلیم دیتا ہے تم لوگوں کو) ( مَّا: اس کی جو ) ( لَمْ تَــکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ : تم لوگ نہیں جانتے تھے)

 ’’ کَمَا‘‘ میں ’’ کَ ‘‘ حرفِ جار ’’ ما‘‘ مصدریہ ’’ اَرْسَلْنَا‘‘ فعل فاعل ’’ فِیْکُمْ‘‘ جار مجرور متعلق ’’ اَرْسَلْنَا‘‘ ’’ رَسُوْلاً‘‘ مفعول بہ ’’ مِنْکُمْ‘‘ جار مجرور متعلق کائنًا  صفت اوّل ’’ رَسُوْلاً‘‘ کی۔ ’’ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیَاتِنَا‘‘ یہ جملہ فعلیہ صفت دوم ’’ وَیُزَکِّیْکُمْ‘‘ صفت سوم۔ ’’ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘ صفت چہارم۔ ’’ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَـکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘ صفت پنجم۔ ’’ اَرْسَلْنَا‘‘ فعل ‘ فاعل ‘ مفعول بہ اور متعلق سے مل کر جملہ فعلیہ بتاویل مصدر ہو کر مصدر محذوف ’’ ھِدَایَۃً‘‘ کی صفت ہو کر محل نصب میں ہے۔ تقدیر عبارت یوں ہے : ’’ لَعَلَّـکُمْ تَھْتَدُوْنَ ھِدَایَۃً کَاِرْسَالِنَا رَسُوْلًا مِّنْکُمْ‘‘ ۔

 نوٹ (1) : آیت زیر مطالعہ کی ابتدا لفظ ’’ کَمَا‘‘ (جیسا کہ) سے ہوئی ہے۔ اس کا ربط گزشتہ آیت کے آخری حصے سے ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تاکہ میں تم لوگوں پر اپنی نعمت تمام کروں اور تاکہ تم لوگ ہدایت پائو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضور ﷺ کی بعثت انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا ایک احسانِ عظیم ہے اور انسانیت کی ہدایت کے لیے ہے اسی طرح تحویل قبلہ کا حکم بھی اللہ کا احسان ہے اور ہماری ہدایت کے لیے ہے۔

 نوٹ (2) : اس آیت کا مفہوم گزشتہ آیت 129 میں واضح کردیا گیا ہے۔ لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس حقیقت کو ایک مرتبہ پھر ذہن نشین کرلیا جائے کہ اسلام کے تجویز کردہ تزکیہ کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات کی تلاوت اس طرح کی جائے جیسا کہ ان کی تلاوت کا حق ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے : {یَتۡلُوۡنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ؕ } (البقرۃ:121) ۔ باقی طریقے دیگر مذاہب سے مستعار لے کر مسلمان کیے گئے ہیں۔ نظریات و عقائد کے تزکیہ کے بعد ہی اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا ممکن ہوتا ہے اور احکام کی حکمت عمل کے بعد سمجھی جاتی ہے۔

 دنیاوی معاملات میں تو کسی کام کی حکمت سمجھنے کے بعد اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا درست طریقہ کار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مختلف طریقہ ہائے کار میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا ہمیں اختیار اور آزادی حاصل ہے‘ یعنی ہمارے پاس Choice ہے‘ لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے کے بعد اس کے احکام کے ضمن میں ہماری Choice ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے احکامِ الٰہی کے لیے یہی ترتیب درست ہے کہ پہلے ان پر عمل کیا جائے اور بعد میں ان کی حکمت سمجھنے کی کوشش کی جائے۔"

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں