اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

اِستعاذۃ

اَعُوْذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ

قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے ـ اور بعض کے نزدیک آخر پر بھی  ـ  شیطانِ مردود کے شر اور اس کی وسوسہ انگیزیوں [جسے قرآنِ کریم میں    ’’هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ ‘‘ اور’’ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ‘‘ بھی کہا گیا ہے] سے بچنے کے لئے اللہ عزوجل کی پناہ اور حفاظت طلب کرنا ضروری ہے۔ اور انسان ـ  اپنی کمزوریوں کی بناء پر ـ  اس پناہ اور حفاظت کا سخت محتاج ہے۔ خود قرآن کریم نے اس ـــ طلب پناہ ـ کا حکم دیاہے (النحل : ۹۸) قاریوں اور دیگر اہلِ علم میں یہ پناہ طلب کرنے لئے مختلف الفاظ اور متعدد صیغے رائج ہیں لیکن سب سے عام اور زیادہ مستعمل عبارت ’’ اَعُوذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ ‘‘ ہے۔ اس پوری عبارت کا نام یا عنوان ’’استعاذہ‘‘ ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’’پناہ طلب کرنا‘‘ اور اصطلاحی معنی ہیں ’’اللہ کی پناہ طلب کرنا‘‘ اور اسی لئے ہم مختصرًا  اسے ’’اَعُوذُ بِاللّٰہِ‘‘ ہی کہتے ہیں۔

قرآن کریم میں تلاوت کے وقت ’’استعاذہ ‘‘ کا حکم تو موجود ہے مگر اس کے لئے کوئی خاص عبارت مقرر نہیں کی گئی اور اس لحاظ سے ہمارے استعاذہ کے یہ الفاظ (اَعُوْذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ) قرآنِ کریم کی کوئی آیت نہیں ہیں اور نہ ہی یہ قرآن کریم کے شروع میں لکھے جاتے ہیں ۔ قرآنِ کریم کی ابتداء تو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘ سے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتب تفسیر اور کتب اعراب القرآن میں بعض مفسر ین اور نحویوں نے اپنی کتاب کا آغاز ’’استعاذہ ‘‘ پر بحث کے ساتھ کیا ہے۔ جب کہ دیگر بعض نے اپنی کتاب کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ ‘‘ پر بحث سے کی ہے اور استعاذہ کی بحث کو نظر انداز کر دیا ہے۔

مقدم الذکر میں طبری، طبرسی‘ ابنِ کثیر، مَغْنِیَہ،  عکبری، ابن خالَویْہ اور محی الدین الدرویش شامل ہیں جب کہ مؤخر الذکر میں زمخشری ، رازی ، آلوسی، قاسمی ، طنطاوی، بیضاوی، رشیضا، المراغی، دروِ زَہ، مکی بن طالب اور ابن الانباری کا نام لیا جا سکتا ہے۔

ہم اپنی کتاب کا آغاز ’’استعاذہ ‘‘ پر بحث سے کرتے ہیں اس لئے کہ تلاوت سے پہلے اس کا پڑھنا کم از کم بھی ’’سنتِ عین‘‘ ضرور ہے بلکہ قرآن کا حکم ہونے کی بنا پر اسے ’’واجب‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ لہٰذا پہلے اس کے معنی جاننا بھی ضروری ہے۔ اور اس غرض کے لئے ہم استعاذہ کا عام معروف صیغہ لیتے ہیں یعنی اَعُوْذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ ۔

تاہم اس تمہیدی بحث کو کتاب کے لئے مجوزہ ’’قطعہ سازی ‘‘(PARAGRAPHING) میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس کی باقاعدہ ابتداء ان شاء اللہ سورۃ الفاتحہ سے ہوگی۔

 

اَعُوذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ

اللغۃ

[اَعُوْذُ ]کا مادّہ ’’ع و ذ‘‘ (اجوف واوی )ہے اس صیغے کا وزن اصلی’ ’ اَفْعُلُ‘‘ ہے  جو تعلیل کے بعد ’’اَفُوْلُ‘‘ رہ گیا ہے۔ اس کی شکل اصلی  ’’اَعُوْذُ‘‘ ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں