اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت ۹۶

۲ : ۵۹      وَ لَتَجِدَنَّہُمۡ اَحۡرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ ۚۛ وَ مِنَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا ۚۛ یَوَدُّ اَحَدُہُمۡ لَوۡ یُعَمَّرُ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ وَ مَا ہُوَ بِمُزَحۡزِحِہٖ مِنَ الۡعَذَابِ اَنۡ یُّعَمَّرَ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿٪۹۶﴾

۱:۴۹:۲      اللغۃ

اس آیت میں بہت سے (آٹھ دس) الفاظ نئے (پہلی دفعہ) آئے ہیں۔ ہم آیت کو (مربوط ترجمہ کر سکنے کی آسانی کے لیے) چھوٹے چھوٹے نحوی جملوں کی شکل میں لکھ کر‘ پہلے ہر ایک جملے کے مفردات (الگ الگ کلمات) کی لغوی بحث کریں گے اور آخر پر اس جملے کا ترجمہ (یا تراجم) زیر بحث لائیں گے۔ حوالے کا نمبر ہر چھوٹے جملے کا ہو گا۔

۱:۵۹:۲ (۱)      [وَ لَتَجِدَنَّھُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ]

(۱) ’’وَ لَتَجِدَنَّھُمْ‘‘یہ ’’وَ لَتَجِدَنَّ ھم‘‘کا مرکب ہے۔ ابتدائی ’’وَ‘‘ عاطفہ ہے یا استیناف کی ہو سکتی ہے ترجمہ ’’اور‘‘ ہی ہو گا۔ آخری ضمیر منصوب ’’ھم‘‘کا ترجمہ یہاں ’’ان کو‘‘ ہو گا - باقی صیغۂ فعل ’’لَتَجِدَنَّ‘‘ مضارع مؤکّد بلام و نون ثقیلہ ہے۔ اصل فعل ’’تَجِدُ‘‘ ہے (جس کی دال کی فتحہ(ــــــَــــ) مؤکّد صیغہ کی ساخت کی وجہ سے ہے)۔ اس طرح اس فعل ’’تجِدُ‘‘ کا مادہ ’’و ج د‘‘ اور وزن اصلی ’’تَفْعِلُ‘‘  ہے اور ’’لَتَجِدَنَّ‘‘  کا وزن اصلی ’’لَتَفْعِلَنَّ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’وجَد . . . .یجِد‘‘ (ضرب سے) استعمال ہوتا ہے اور مختلف مصدروں کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے۔ یہ مادہ ’’مثال واوی‘‘ ہے جس کے مضارع میں فاء کلمہ (و) گر جاتی ہے۔ یعنی مضارع  ’’یَوْجِدُ‘‘ کی بجائے ’’یَجِدُ‘‘ آتا ہے اور یوں ’’لَتَجِدَنَّ‘‘ کا موجودہ وزن ’’لَتَعِلَنَّ‘‘ رہ گیا ہے۔

  • فعل’’وجَد . . . .یَجِدُ وُجودًا و وِجْدانًا‘‘ کے بنیادی معنی ہیں ’’. . . . کو پانا۔ پا لینا‘‘ مثلاً کہتے ہیں  ’’وَجد مطلوبَہ‘‘  ’’اس نے اپنا مطلوب یعنی جس کی طلب تھی پا لیا‘‘۔ پھر یہ ’’پا لینا‘‘ حسی بھی ہوتا ہے یعنی جس چیز کو حواس خمسہ میں سے کوئی حِس پا لے اور ’’وجود‘‘ عقلی بھی ہوتا ہے یعنی جسے عقل پا لے اسی لیے بعض دفعہ حسبِ موقع اس فعل (وجد) کا ترجمہ ’’مشاہدہ کرنا‘‘ یا ’’قابو پانا‘‘ بھی کیا جا سکتا ہے۔
  • یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتا ہے تاہم عموماً یہ دو مفعول کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے اور دونوں مفعول بنفسہ (منصوب) آتے ہیں اور اس وقت ’’وجَد‘‘ گویا  ’’عَلِم‘‘ (جان لیا) کے معنی میں آتا ہے یا دوسرے مفعول کو ’’حال‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً  ’’ وَجَدْنٰهُ صَابِرًا ‘‘ (ص: ۴۴) یعنی ’’ہم نے اس کو صبر کرنے والا پایا‘‘ یا ’’جان لیا / دیکھ لیا۔‘‘
  • مندرجہ بالا معنی کے علاوہ یہ فعل بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’وجَد یجِد وَجْدًا‘‘ کے معنی ’’غمگین  ہونا‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ اور ’’وجد یجد عَلَیہ موجِدَۃً‘‘ کے معنی ’’. . . . پر ناراض ہونا۔ غضبناک ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ اور ’’وجد یجِد بہٖ وَجْدًا‘‘کے معنی ’’. . . . سے محبّت کرنا‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ تاہم ان معانی کے لیے یہ فعل قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا، بلکہ قرآن میں یہ اوپر والے معنی (پانا۔ پا لینا وغیرہ) میں ہی آیا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے ہی ماضی و مضارع کے مختلف صیغے سو سے زائد (۱۰۴) جگہ آئے ہیں۔ عام عربی میں اگرچہ اس مادہ سے مزید فیہ کے افعال بھی استعمال ہوتے ہیں بلکہ بعض الفاظ (مثلاً ’’ایجاد‘‘) تو اردو میں بھی رائج ہیں، تاہم قرآن کریم میں اس سے مزید فیہ کا کوئی فعل استعمال نہیں ہوا ہے۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں