اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت ۷۸ اور ۷۹

۴۹:۲    وَ مِنۡہُمۡ اُمِّیُّوۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ الۡکِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَظُنُّوۡنَ ﴿۷۸﴾فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ یَکۡتُبُوۡنَ الۡکِتٰبَ بِاَیۡدِیۡہِمۡ ٭ ثُمَّ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰذَا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ لِیَشۡتَرُوۡا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ فَوَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا کَتَبَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ وَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۷۹﴾ 

۱:۴۹:۲       اللغۃ

۱:۴۹:۲ (۱)    [وَمِنْھُمْ اُمِّیُّوْنَ] ابتدائی ’’وَمِنْھم‘‘ ’’وَ‘‘ (اور) + ’’مِنْ‘‘ (میں سے) + ’’ھُمْ‘‘(ان) ہے اور یوں اس کا ترجمہ ہوا ’’اور ان میں سے‘‘ (ہیں یا تھے) جس کا بامحاورہ ترجمہ ’’ان میں سے کچھ / بعض/ بہت (ہیں)‘‘ کی صورت میں کیا گیا۔ اور یہ ’’کچھ/ بعض/ بہت‘‘ اگلے لفظ ’’اُمِّیّون‘‘ کے نکرہ ہونے کی وجہ سے لگانے پڑے ہیں۔ بیشتر مترجمین نے ’’منھم‘‘ کا ترجمہ ’’ان میں‘‘ کے ساتھ کیا ہے جو بلحاظ محاورہ درست ہے مگر بظاہر ’’فیھم‘‘ کا ترجمہ لگتا ہے۔ [اُمِّیُّوْنَ] یہ لفظ ’’اُمِّیٌّ‘‘ کی جمع مذکر سالم ہے۔ اور ’’ اُمِّیٌّ ‘‘ کا مادہ ’’ا م م‘‘ اور وزن ’’فُعْلِیُّ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد باب نصر سے ’’اَمَّ یَؤُمُّ‘‘ مختلف مصادر کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے۔

(۱)  ’’اَمَّ یؤُمُّ أُمُوْمَۃً‘‘ کے معنی ہیں ’’ماں بننا‘‘ کہتے ہیں ’’أَمَّتِ المرأۃُ‘‘ (عورت ماں بن گئی) اور اسی سے لفظ ’’اُمٌّ‘‘ ہے جس کے بنیادی معنی ’’ماں‘‘ ہیں۔ دیگر معانی و استعمال آگے حسب ِ موقع آئیں گے۔

(۲) ’’اَمَّ یَؤُمُّ أَمًّا‘‘ کے معنی ہیں: ’’کسی چیز کا قصد کرنا‘‘ مثلاً کہیں گے: ’’امّ فلانٌ اَمْرًا‘‘ (فلاں نے ایک کام کا قصد کیا) اور اسی سے لفظ ’’اُمَّۃٌ‘‘ ہے یعنی وہ جماعت یا لوگ جو ایک مشترکہ قصد، ارادہ اور واحد نصب العین رکھتے ہوں۔ اس لفظ (اُمّۃ) کے بعض دوسرے معنی بھی ہیں جو حسب موقع بیان ہوں گے۔

(۳) ’’اَمَّ یَؤُمُّ اِمَامَۃً‘‘ کے معنی ہیں ’’لوگوں کے آگے چلنا اور ان کا لیڈر بننا‘‘ کہتے ہیں ’’اَمَّ القومَ‘‘ (اس نے لوگوں کی (نماز میں) امامت کی یا وہ لوگوں کا امام بنا)۔ عربی میں لفظ ’’امام‘‘کے بھی متعدد معانی ہیں یہ بھی حسب موقع سامنے آئیں گے۔ قرآن حکیم میں ان (تینوں) افعال سے کوئی صیغہ فعل تو کہیں استعمال نہیں ہوا البتہ اس سے مشتق اور ماخوذ کلمات (امّ۔ امّۃ۔ اَمّ۔ اَمام۔ إمام وغیرہ) مختلف صورتوں (واحد جمع مفرد مرکب) میں بکثرت وارد ہوئے ہیں۔ جن پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

  • لفظ ’’اُمِّیٌّ‘‘ (جس کی جمع ’’اُمِّیُّون‘‘ اس وقت زیر مطالعہ ہے) اسم نسبت ہے جس کی نسبت ’’اُمٌّ‘‘ سے بھی ہوسکتی ہے اور ’’اُمَّۃ‘‘ سے بھی۔ (جیسے ’’مکۃ‘‘ سے ’’مَکِّیٌّ‘‘ بنتا ہے)۔ اس لفظ (اُمّیّ) کے بنیادی معنی ’’ناخواندہ یا ان پڑھ‘‘ ہیں۔ یعنی جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو (ضروری نہیں کہ وہ جاہل یا نادان ہو) گویا وہ بلحاظ خواندگی ویسا ہی ہو جیسا اسے ماں نے جنا تھا یا ’’ماں کے پاس ہی رہا کسی استاد کے پاس مدرسے وغیرہ میں نہ گیا‘‘۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں