اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت ۷۵

۴۷:۲      اَفَتَطۡمَعُوۡنَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا لَکُمۡ وَ قَدۡ کَانَ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوۡنَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا عَقَلُوۡہُ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۷۵﴾

۱:۴۷:۲      اللغۃ

۱:۴۷:۲ (۱) [ اَفَتَطْمَعُوْنَ] ابتدائی [اَفَ] حرف استفہام (أ) اور حرفِ عطف (فَ) ہے جس کا ترجمہ تو ہے ’’کیا پس/ پھر‘‘ تاہم بامحاورہ اردو ترجمہ ’’پس/ پھر کیا‘‘ بہتر ہے۔ بعض نے ’’اب کیا؟‘‘، ’’کیا اب بھی‘‘ اور ’’تو کیا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے گویا اس میں ’’فَ‘‘ کا ترجمہ ’’اب، اب بھی اور تو‘‘ سے کیا گیا ہے بعض نے فاء (فَ) کا ترجمہ نظر انداز کرتے ہوئے صرف حرفِ استفہام ’’کیا‘‘ سے ہی کام چلایا ہے۔ خیال رہے کہ جب حرف استفہام (’’ أ  ‘‘یا ’’ھَل‘‘) کے ساتھ حرف عطف (فَ) جمع ہو جائے تو ( أ ) کی صورت میں استفہام کا حرف پہلے اور عطف کا حرف بعد میں آتا ہے یعنی بصورت ’’أفَ‘‘ (جیسے یہاں ہے) اور اگر دوسرا حرف استفہام (یعنی ’’ھَل‘‘) حرف عطف (فاء) کے ساتھ جمع ہو تو حرف عطف پہلے اور حرفِ استفہام بعد میں لاتے ہیں یعنی بصورت ’’فَھَلْ‘‘ قرآن کریم میں آپ کو یہ دونوں استعمال کئی مقامات پر ملیں گے۔ بامحاورہ ترجمہ دونوں صورتوں میں قریباً یکساں ہی رہتا ہے۔ یعنی ’’کیا پھر/ پھر کیا‘‘

  • ’’تَطْمَعُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ط م ع‘‘ اور وزن ’’تَفْعَلُوْنَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’طمِع یَطْمَعُ طَمْعًا‘‘ (سمع سے) آتا ہے۔ اور اس کے جو بنیادی معنی تو ہیں ’’کسی چیز کو حاصل کرنے کی خواہش رکھنا۔‘‘ اگر یہ خواہش زبردست اور شدید ہو تو اسے ’’طمع یا حرص‘‘ (لالچ) کہتے ہیں۔ اور اگر نسبتاً کم یا نرم ہو تو اسے ’’رجاء یا رغبت‘‘ (امید) کہتے ہیں۔ اس طرح اس فعل کے معنی ہیں: ’’لالچ کرنا، طمع رکھنا‘‘ (اس فعل کا مصدر طمع بمعنی لالچ اردو میں مستعمل ہے) پھر اس سے اس میں ’’امید رکھنا، توقع رکھنا، رغبت رکھنا‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اور جس شخص یا چیز کے بارے میں حرص، لالچ امید یا توقع رکھی جائے اس کے لیے عربی میں اس فعل (طمع یطمَع) کے ساتھ زیادہ تر ’’فی‘‘ یا کبھی ’’ب‘‘ کا صلہ آتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’طمِع فی کذایا بِکذا‘‘ (اس کے بارے میں  پُراُمید ہوا یا توقع رکھی) ’’طمِعَہ‘‘ نہیں کہا جاتا۔ البتہ بعض دفعہ (بلکہ اکثر) اس فعل کے بعد ’’أن‘‘ سے شروع ہونے والا ایک جملہ آتا ہے جس میں اس شخص یا چیز کا ذکر ہوتا ہے جس کی طمع یا امید کی جائے۔ اور دراصل اس ’’أَن‘‘ سے پہلے ایک ’’فی‘‘ یا ’’ب‘‘ مقدر ہوتی ہے یعنی ’’فِیْ أن‘‘ یا ’’بِأَن‘‘ ہی سمجھا جاتا ہے۔

قرآن کریم میں اس فعل سے مضارع کے صیغے آٹھ جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے چھ جگہ اس فعل کا مفعول ’’أن‘‘ سے شروع ہونے والے جملے کی صورت میں ہی آیا ہے۔ اور دو جگہ مفعول محذوف (غیر مذکور) آیا ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یعنی قرآن کریم میں یہ فعل ’’فی‘‘ یا ’’بِ‘‘ کے صلہ کے ساتھ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ فعل کے علاوہ اس کا مصدر ’’طمعًا‘‘ (بصورت منصوب حال یا مفعول لہ ہو کر) بھی چار جگہ وارد ہوا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں