- اس عبارت (یتفجر منہ الانھٰر) میں ’’منہ‘‘ کی ضمیر واحد کی طرح صیغۂ فعل ’’یتفجر‘‘ بھی واحد مذکر غائب ہے۔ اس لحاظ سے اس کے پہلے حصے (یتفجر منہ) کا ترجمہ ہونا چاہیے ’’پھوٹ نکلتا ہے/ جاری ہوتا ہے اس میں سے‘‘۔ مگر ضمیر ’’ہ‘‘ کے ’’ما‘‘ کا عائد ہونے کی بنا پر (جو واحد جمع مذکر مؤنث سب کے لیے ہے) اور فعل ’’یتفجر‘‘ کے فاعل (الانھر= دریا، ندیاں، نہریں) کے ترجمہ کی اردو میں تذکیر و تانیث کی مناسبت سے اردو ترجمہ ’’پھوٹ نکلتی ہیں/ جاری ہوتی ہیں/ بہہ نکلتی ہیں‘‘ کے ساتھ بھی کیا گیا ہے اور ’’بہہ نکلتے ہیں‘‘ وغیرہ کی شکل میں بھی۔
[وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا] اس کے بھی تمام کلمات پہلے بیان ہو چکے ہیں یعنی یہ ’’وَ‘‘ (اور) + ’’اِنَّ‘‘ (بے شک) + ’’مِنْھَا‘‘ (اس میں سے) + ’’لَمَا‘‘ (البتہ وہ جو کہ) کا مرکب ہے اور اس کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور بے شک اس (مؤنث) میں سے البتہ کوئی وہ ہے جو کہ‘‘یہاں بھی کچھ تو ضمیر مؤنث ’’ھا‘‘ کے پتھروں کے لیے ہونے کی وجہ سے اور کچھ ’’مَا‘‘ (لما والا) میں واحد جمع مذکر مؤنث سب کامفہوم موجود ہونے کی وجہ سے بامحاورہ اردو میں اس عبارت (وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا) کے تراجم مختلف طریقے پر کیے گئے ہیں مثلاً ’’ان میں سے تو وہ بھی ہیں/ ایسے بھی ہیں جو / بعض ایسے ہوتے ہیں کہ /کچھ وہ ہیں جو/ بعضے وہ ہیں جو‘‘ کی صورت میں۔ یہاں بھی محاورہ کی خاطر ’’اِنَّ‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کرنا پڑا ہے۔ اور یہاں بھی ’’کوئی، کچھ، بعض‘‘ کا مفہوم ’’مِنْ‘‘ (منھا) میں موجود ہے۔
۱:۴۶:۲ (۴) [یَشَّقَّقُ] کا مادہ ’’ش ق ق‘‘ اور وزن اصلی ’’یَتَفَعَّلُ‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’یَتَشَقَّقُ‘‘ تھا۔ اور اس کا اسی طرح (یعنی بصورت اصلی) استعمال بھی درست ہے۔ تاہم بعض دفعہ اہل عرب باب تفعل کے فاء کلمہ ’’ت ث ج ر ذ ز س ش ص ض ط ظ‘‘ (۱۲حروف) میں سے کسی حرف کے ہونے کی صورت میں ’’تاء تفعل‘‘ کو بھی اسی حرف میں بدل کر مدغم کر دیتے ہیں اور پھر ماضی امر اور مصدر کے شروع میں حرفِ مشدّد (مدغم) کو پڑھنے کے لیے ہمزۃ الوصل بھی لگاتے ہیں۔ مضارع میں اس (ہمزۃ الوصل) کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یوں یہ لفظ ’’یتشقق‘‘ کے علاوہ بصورت ’’یَشَّقَقُ‘‘ بھی پڑھا، بولا اور لکھا جاتا ہے۔ یہاں اس کی قراء ت تبدیل شدہ شکل کے ساتھ ہے۔
- اس مادہ (ش ق ق) سے فعل مجرد (شَقَّ یَشُقّ شَقًّا) (نصر سے) بطور فعل لازم و متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’پھٹ جانا اور پھاڑ دینا۔‘‘ پھر اس سے یہ متعدد معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً (۱)جانور کی ’’ناب‘‘ (پانچواں دانت جسے ’’کچلی‘‘ بھی کہتے ہیں) نکل آنا۔ کہتے ہیں ’’شقَّ النابُ‘‘ (یعنی مسوڑھا پھاڑ کر کچلی نکل آئی) (۲)نباتات کا زمین پھاڑ کر نکل آنا۔‘‘ کہتے ہیں ’’شق النبتُ‘‘ (۳) ’’کسی چیز میں دراڑ ڈال دینا‘‘ جیسے ’’شقَّ الزّجاجَ‘‘ (اس نے شیشہ میں دراڑ ڈال دی) (۴)’’نہر کھودنا‘‘ کہتے ہیں ’’شقَّ النھرَ‘‘ (اس نے نہر کھود نکالی) (۵)’’مشکل اور دشوار ہونا‘‘ کہتے ہیں ’’شقَّ الامرُ علیہ‘‘ (بات اس پر دشوار ہوئی) اور (۶)علیٰ کے صلہ کے ساتھ ہی یہ ’’کسی پر دشواری ڈالنا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے۔ مثلاً کہیں گے: ’’شقَّ علیٰ فلانٍ‘‘ (اس نے اسے دشواری میں ڈالا)۔