۲:۴۳:۲ الاعراب
زیر مطالعہ دو آیات کو اعرابی لحاظ سے چھ یا سات مستقل جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میں سے بعض جملے بلحاظ مضمون دوسرے جملے کا حصہ ہی شمار ہوسکتے ہیں۔ اور بعض کو فاء عاطفہ کے ذریعے سابقہ جملے سے مربوط کیا گیا ہے۔ ان سات جملوں کے اعراب کی تفصیل یوں ہے۔
(۱) وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖۤ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تَذۡبَحُوۡا بَقَرَۃً ؕ
[وَاِذْ] کی واو مستانفہ اور ’’اذ‘‘ ظرفیہ ہے۔ یہ ترکیب ’’وَاِذْ‘‘ اب تک بارہ (۱۲) دفعہ گزر چکی ہے [قال] فعل ماضی معروف کا پہلا (واحد مذکر غائب) صیغہ ہے۔ اور [موسٰی] اس کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے۔ مگر اسمِ مقصور ہونے کے باعث اس میں علامت رفع ظاہر نہیں ہے۔ [لقومہ] لام الجر (ل) اور ’’قومہ‘‘ (مضاف مضاف الیہ) مل کر متعلق فعل ’’قال‘‘ ہے [اِنَّ] حرف مشبہ بالفعل اور [اللّٰہ] اس کا اسم منصوب ہے یہاں فعل ’’قال‘‘ کے بعد آنے کی وجہ سے جملے کے درمیان میں ’’اَنَّ‘‘ (مفتوحہ) کی بجائے ’’إِنَّ‘‘ (مکسورہ) آیا ہے [یأمُرُ] فعل مضارع معروف کا پہلا صیغہ (واحد مذکر غائب) ہے اور [کُمْ] ضمیر منصوب اس (یامر)کا مفعول بہ اوّل ہے (جس کو حکم دیا جائے)[أنْ] مصدریہ ناصبہ ہے جو دراصل ’’بِأَنْ‘‘ ہے جو فعل امر کے دوسرے مفعول (ماموربہ۔ جس بات کا حکم دیا جائے) پر داخل ہوتا ہے (یعنی ’’بِ‘‘ یا ’’بِأن‘‘ یا صرف ’’أن‘‘ استعمال ہوتا ہے) [تَذْبَحُوْا] مضارع منصوب صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جو ’’أَن‘‘ کی وجہ سے منصوب ہے علامت نصب (’’تذبحون‘‘ کے) آخری ’’ن‘‘ کا سقوط (گر جانا) ہے [بقرَۃً] فعل (تَذْبحوا) کا فعل بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ ’’أن‘‘ کو مصدریہ سمجھیں تو ’’أن یذبحوا بقرَۃً= بذِبْحِ بقرَۃٍ (ایک گائے کے ذبح کرنے کا) تاہم اردو مترجمین نے عموماً ’’ان تذبحوا‘‘ (کہ تم ذبح کرو) کی صورت میں ہی ترجمہ کیا ہے۔ اس طرح یہ جملہ فعلیہ ’’یا مرُکم أن تذبحوا بقرۃ‘‘ (’’إن اللّٰہ‘‘ والے) ’’إِنَّ‘‘ کی خبر (لہٰذا) محلاً مرفوع ہے اور پورا جملہ (إِنَّ اللّٰہ. . . . بقرۃ) فعل ’’قال‘‘ کا مقول (مفعول) ہونے کے لحاظ سے محلاً منصوب ہے۔ مندرجہ بالا پورے جملے کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’جب کہا موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے بے شک اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے تم کو کہ تم ذبح کرو ایک گائے‘‘ اس عبارت کے بعض کلمات کے معنی میں اختلاف یا تنوع پر حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بحث ہوچکی ہے۔
(۲) قَالُوۡۤا اَتَتَّخِذُنَا ہُزُوًا ؕ
[قالوا] فعل ماضی معروف ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ شامل (مستتر) ہے اور اس ’’ھم‘‘ کی علامت صیغۂ فعل کی آخری واو الجمع ہے [ أَ ] استفہامیہ ہے اور یہاں استفہام برائے تعجب ہے۔ [تتخذ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعل ’’أنتَ‘‘ ہے جس کی علامت ابتدائی ’’ت‘‘ ہے [نَا] ضمیر منصوب متصل فعل ’’تتخذ‘‘ کا مفعولِ اول ہے اور [ھُزُوًا] اس (تتخذ) کا مفعول ثانی (لہٰذا) منصوب ہے۔ اگرچہ ابتدائی ’’اِذ‘‘ (جملہ نمبر ا) شرطیہ نہیں ہے۔ مگر سابقہ جملے کی مناسبت سے یہاں ’’قالوا‘‘ کا ترجمہ ’’تو بولے، تو کہنے لگے‘‘ سے ہوسکتا ہے۔ اس حصہِ عبارت (قالوا اتتخذنا ھزوا) کے بامحاورہ تراجم اور ان کی توجیہ پر حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بات ہوچکی ہے۔