اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ  ۴۲ ، ۴۳ اور ۴۴

۲۹:۲وَ لَا تَلۡبِسُوا الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ وَ تَکۡتُمُوا الۡحَقَّ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۴۲﴾وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ارۡکَعُوۡا مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ ﴿۴۳﴾اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَ تَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴۴﴾   

۱:۲۹:۲     اللغۃ

[وَ] عاطفہ ہے جو اگلے اور پچھلے جملے کو ملاتی ہے۔ [ لَا تَلۡبِسُوا] کا مادہ ’’ل ب س‘‘ اور وزن ’’لا تَفْعِلُوْا‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے جن سب میں بنیادی اور مشترک مفہوم ’’چھپا دینا اور پردہ ڈالنا‘‘ کا ہوتا ہے۔ مثلاً

 (۱) لَبس … یلبُس لَبْسًا (نصر سے) کے معنی ہیں ’’…کو اپنے بارے میں شک اور اُلجھن میں ڈال دینا‘‘ مثلاً ’’لبَسنِیْ‘‘= اس نے مجھ کو اپنے (اس کے) بارے میں اشتباہ پیدا کردیا۔ قرآن میں اس استعمال کی کوئی مثال نہیں ہے۔

 (۲) ’’ لبَس… (۱)… یلبِس لَبْسًا علی… (۲) … (ضرب سے) آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں ’’۔۔(۱) ۔۔کو۔۔ (۲)….پرمشتبہ کر دینا….(۲)…کے لیے…(۱)….میں اشتباہ پیدا کردینا۔مثلا کہتے ہیں "لبس الامر علیہ"(اس نے اس پر معاملہ مشتبہ کردیا) قرآن کریم میں اس کی مثال الانعام:۹میں ہے۔

(۳)لبَس….(۱)…یلبِس لَبْساًبِ….(۲)…(ضرب سے ہی)آتا ہے اور اس کے معنی  ہوتے ہیں:’’(۱)کو(۲)کے ساتھ خلط ملط کردینا‘‘ یا ’’(۱) کو (۲) کے ساتھ گڈ مڈ کردینا‘‘ مثلا کہتے ہیں ’’لَبس الحقَّ بالباطل‘‘ (اس نے حق کو باطل سے خلط ملط کردیا)۔ یہ ’’ملادینا‘‘ جیسی چیزوں (مثلا سونا اور پیتل یا گندم اور جَو) کی بجائے معنوی چیزوں (مثلاً سچ اور جھوٹ یا صحیح اور غلط) کو ملا جلا دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آیت زیرِ مطالعہ میں یہ فعل ان ہی معنی کے لیے آیا ہے۔ اسی لیے ’’لاتلبسوا‘‘ کا ترجمہ ’’مت ملاؤ ،گڈمڈ نہ کرو، نہ ملاؤ، خلط  ملط  مت کرو‘‘سے گیا گیا ہے۔

 (۴) لبِس… یلبَس لُبْسًا (سمع سے) آئے تو اس کے معنی: ’’…کو پہننا، پہن لینا‘‘ہوتے ہیں۔ اس کا مفعول پہننے کا کوئی کپڑا (چادر قمیص وغیرہ) آتا ہے مثلاً کہیں گے لبسَ الثوبَ (اس نے کپڑا پہنا)۔

  • اس فعل کی آخری (مندرجہ بالا) تینوں صورتیں قرآن کریم میں استعمال ہوئی ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے فعل کے مختلف صیغے گیارہ(۱۱) جگہ وارد ہوئے ہیں۔ ان میں سے مندرجہ بالا نمبر۲ والے معنی کے لیے چار جگہ  نمبر ۳والے معنی کے لیے تین جگہ اورنمبر۴ کے لیے بھی چار جگہ استعمال ہوا ہے۔ عام عربی زبان میں یہ فعل مجرور و مزید فیہ بعض دیگر معانی اور محاورات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم اس طرح کا استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا ـ البتہ اس مادہ سے ماخوذ بعض اسماء (مثلاً لِباس، لَبُوس اور مصدر لَبْسٌ وغیرہ) دس بارہ جگہ آئے ہیں۔ ان پر حسبِ موقع بحث ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں