۱:۲۷:۲(۷) [بِایٰتِنَا] میں ابتدائی ’’بِ (باء)‘‘ تو فعل ’’کذَّبوا‘‘کے صلہ کے طور پر آیا ہے (یعنی ’’کذَّبوابِ … کا ترجمہ ہے، کو جھوٹ سمجھا، … کی تکذیب کی) اور آخری ’’نَا‘‘(’’آیاتنا‘‘میں) ضمیر مجرور بمعنی ’’ہماری‘‘ہے (یعنی ’’ہماری آیات کو‘‘)اس طرح ’’بِ‘‘ اور ’’نا‘‘ کو نکال کر باقی وضاحت طلب لفظ ’’آیاتٌ‘‘بچتا ہے (جو عبارت میں مجرور اور مضاف ہونے کے باعث بصورت ’’آیاتِ‘‘ آیا ہے) یہ لفظ (آیاتٌ) ’’آیۃً‘‘ کی جمع مؤنث سالم ہے۔
- لفظ ’’آیۃ‘‘کے مادہ سے وزن کے بارے میں اختلا ف ہے۔ اکثر کے نزدیک اس کا مادہ ’’ا ی ی‘‘ہے۔ [1] اگرچہ بعض نے اسے ’’اوی‘‘سے ماخوذ سمجھا ہے۔ [2] اس کے ساتھ اس کے وزنِ اصلی کے بارے میں بھی مختلف اقوال ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ:
(۱) وزنِ اصلی ’’فَعَلَۃٌ‘‘ اور شکل اصلی ’’أیَیَۃ‘‘ہے۔ قیاس یہ تھا کہ دوسری ’’یاء‘‘ماقبل مفتوح کی بنا پر الف میں بدلتی اور یہ ’’حیاۃ‘‘ (ح ی ی سے) اور ’’نَواۃٌ (ن و ی سے) کی طرح ’’أیَاۃ‘‘ ہو جاتا کیونکہ جب دو حرفِ علت جمع ہوں تو تعلیل دوسرے میں ہوتی ہے مگر خلافِ قیاس پہلی ’’یاء‘‘ کو (ماقبل مفتوح کی بناء پر ہی) الف میں بدل دیاگیا جیسے ’’رایۃٌ‘‘ بمعنی جھنڈا (’’ر ی ی‘‘ سے) اور ’’غَایَۃٌ‘‘ بمعنی انتہاء (غ ی ی سے) بنا ہے گویا أَ یَیَۃ = أایَۃ= آیۃ۔
(۲) وزنِ اصلی ’’فَعْلَۃ‘‘ اور اصلی شکل ’’أیْیَہ‘‘ہے۔ اسے قاعدے کے مطابق ’’أیَّہ‘‘ہونا چائے مگر یہاں بھی خلافِ قیاس ’’یاء‘‘ساکنہ کو (ماقبل مفتوح کی بناء پر) الف میں بدل دیا گیا۔ یا تشدید کو ثقیل سمجھ کر تخفیف کر لی گئی جیسے (مشہور عرب قبیلہ) ’’طَیِّییٌ‘‘سے اسم نسبت ’’ طائِیٌّ‘‘ بنا لیا گیا جو دراصل تو طَیِّیٌٔ بنتا تھا۔ بہر حال یہ بھی خلافِ قیاس ہی ہے۔
(۳) وزن اصلی ’’فَاعِلۃ‘‘ اور شکلِ اصلی ’’آیِیَۃ‘‘تھی۔ قیاس یہ چاہتا تھا کہ یہ ’’آیَّۃ‘‘ (دابۃ کی طرح)ہو جاتا۔ مگر یہاں بھی خلافِ قیاس تخفیف کردی گئی۔ پہلی ’’یا‘‘گرا کر)۔
(۴) وزن اصلی ’’فَعَلَۃ‘‘ اور شکل اصلی ’’أَوَیَۃ‘‘تھی (مادہ ’’اوی‘‘سمجھنے کی صورت میں) اس صورت میں اسے ’’أوَاۃٌ‘‘ ہونا چاہئے تھا کیونکہ دو حرفِ علّت جمع ہونے کی صورت میں تعلیل دوسرے میں ہوتی ہے۔ (جیسا کہ اوپرنمبر۱ میں بیان ہوا ہے) یہاں بھی خلافِ قیاس پہلے حرف علت ’’و‘‘کو الف میں بدل دیا گیا ہے۔
(۵) وزن اصلی ’’فَعِلَۃٌ اور شکل اصلی ’’أَیِیَۃٌ‘‘ تھی۔ پہلی ’’یاء‘‘ متحرکہ ماقبل (ھمزۃ) کے مفتوح ہونے کے باعث الف میں بدل کر لفظ ’’آیۃ‘‘ہوگیا۔ یعنی (أیِیَۃ= أایَۃ= آیَۃ‘‘) یہ صورت قیاس صرفی سے زیادہ قریب ہے۔
- اس لفظ (آیۃ)کے وزن اور تعلیل کے بارے میں ایک دو اور قول بھی بیان ہوئے اور مندرجہ بالا تمام تعلیلات کے حق میں اور ان کے مخالف دلائل بھی دئے گئے ہیں۔ جس کا بیان طوالت کے باعث نظر انداز کیا جاتا ہے۔[3]
__________________________________
[1] مثلا القاموس الوسیط اور Lane
[2] مثلاً المنجد۔ البستان
[3] مزیدبحث کے لیے دیکھئے ’’التبیان‘ للعکبری ج۱ ص۵۲ اور ’’معجم مفردات الابدال والا علال‘‘ للخرّاط ص۴۲ و مابعدھا۔ نیز دیکھیےمفردات راغب تحت مادہ۔