اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۲۸ اور ۲۹

۲۰:۲    کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ کُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡیَاکُمۡ ۚ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ثُمَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۲۸﴾ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ٭ ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰىہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ ؕ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿٪۲۹﴾ 

۱:۲۰:۲       اللغۃ

۱:۲۰:۲(۱)     [کَیْفَ]یہ اسماءِ استفہام میں سے ایک اسم ہے جس کا اردو ترجمہ ’’کیسے؟، کیسا؟، کیوں کر؟، کس طرح؟‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ اس کا مادہ ’’ک ی ف‘‘ اور وزن ’’فَعْلَ‘‘ہے (یعنی اس کے آخر پر تنوین نہیں آتی بلکہ یہ ہمیشہ فتحہ(ــــَــــ) پر مبنی ہوتا ہے) ۔عربی زبان میں اس مادہ سے ایک فعل ثلاثی مجرد ’’کاف…یکِیْفُ کیفًا‘‘(باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ’’…کو کاٹ دینا‘‘ ہوتے ہیں اور مزید فیہ کے ایک دو ابواب سے بھی فعل آتے ہیں۔ اور اس مادہ سے بعض جدید فنی اصطلاحات کے لیے بھی فعل بنالیے گئے ہیں۔ مثلاً ’’کَیَّفَ اور تکیَّفَ‘‘ بمعنی ء ’’ائرکنڈیشن کرنا اورہونا‘‘ اسی مادہ سے ماخوذ لفظ ’’کیفیت‘‘ اردو میں مستعمل ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل استعمال نہیں ہوا۔

بعض دوسرے اسماءِ استفہام کی طرح ’’کیفَ‘‘ کے استعمال کے بارے میں چند باتیں قابل ذکر ہیں۔

(۱) یہ لفظ عموماً تو استفہام (کچھ دریافت کرنا) کے لیے آتا ہے اور بطور استفہام بھی کبھی تو صرف ’’حال دریافت کرنے‘‘ کے لیے آتا ہے۔ جیسے ’’کیفَ انت؟‘‘ (تیرا کیا حال ہے) اس صورت میں اسے استفہامِ حقیقی کہتے ہیں۔ اور کبھی یہ لفظ اظہار ِتعجب کے لیے آتا ہے۔ جیسے اسی زیر مطالعہ آیت میں ہے (گویا یہ ’’کتنی عجیب بات ہے کہ‘‘کے معنی میں ہے) اور کبھی یہ (کیفَ) دراصل نفی یا انکار کے لیے آتا ہے جیسے ’’ كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَهْدٌ ‘‘ (التوبۃ:۷) میں (بمعنی کیوں کر : یعنی ’’نہیں‘‘) ہے اور کبھی یہ (اسم استفہام) دراصل تو بیخ یعنی جھڑک دینے کے لیے آتا ہے جیسے ’’ اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَال ‘‘ (الفرقان:۹) میں ہے۔

         (۲)کبھی یہ (کیف) اسم شرط کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہےمگر شرط اور جوابِ شرط کا فعل لفظ اور معنی کے لحاظ سے ایک ہی ہوتا ہے اور اس میں کوئی فعل مجزوم نہیں ہوتا۔ اس صورت میں اس کا ترجمہ ’’جیسا … ویسا‘‘ کی طرح کیا جاتا ہے مثلاً ’’کیفَ  تصنَعُ اصنَعُ‘‘ (تو جیسا کرے گا میں ویسا ہی کروں گا)۔ اس میں دو مختلف فعل استعمال نہیں ہوسکتے مثلا ’’کیفَ تکتبُ اقرءُ‘‘کہنا بالکل غلط ہے۔ اگر ’’کیف‘‘ کے ساتھ ’’مَا‘‘ بھی لگا ہو یعنی ’’کیفما‘‘ استعمال کریں تو پھر یہ ایسے اسم شرط کا کام دیتا ہے جس میں شرط اور جوابِ شرط کے فعل مجزوم ہوں گے۔ مثلاً ’’کیفما تصنعْ اصنعْ‘‘ قرآن کریم میں ’’کیفما‘‘ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ ’’کیفَ‘‘ بھی اسم شرط کے طور پر کہیں نہیں آیا۔

یہ وضاحت تو ’’کَیفَ‘‘کے لغوی معنی (حسبِ موقع) کے لحاظ سے ہے۔ بلحاظِ اعراب ’’کیفَ‘‘ کبھی خبر کے طور پرآتا ہے، کبھی حال کے طور پر اور کبھی مفعول (ثانی یا مطلق) کے طور پر آتا ہے۔ اس کا بیان ابھی آگے ’’الاعراب‘‘ میں آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ لفظ ’’کیفَ‘‘ قرآن کریم میں ۸۳ جگہ وارد ہوا ہے اور مذکورہ بالا تمام معانی (استفہام، تعجب، انکار اور توبیخ) کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ہر جگہ اس کے معنی کا تعیّن سیاق و سباقِ عبارت سے ہوسکتا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں