اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ البقرہ آیت نمبر ۲۵

۱۸:۲      وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡہَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا ؕ وَ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ ٭ۙ وَّ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۵﴾

۱:۱۸:۲       اللغۃ

۱:۱۸:۲(۱)      [وَبَشِّرْ]میں ابتدائی واو عاطفہ یہاں بمعنئِ استیناف ہے جس کا اردو ترجمہ بہر حال"اَوْر"سے ہی ہوگا۔واو الاستیناف پر مفصّل بات البقرہ:۸یعنی ۱:۷:۲(۱)میں گزرچکی ہے۔اور"بَشِّرْ"(جس میں ساکن"رْ"کو آگے ملانے کے لیے کسرہ(ـــــِــــ)دی گئی ہے) کامادہ ’’ب ش ر‘‘ اورو زن ’’فَعِّلْ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد مختلف ابواب سے مختلف معنی کے لیے آتا ہے۔ مثلاً (۱) بشَر یبشِرُ بَشْرًا (باب ضرب اور نصر سے) آئے تو اس کے معنی ’’دباغت کے لیے کھال کو چھیلنا‘‘ ہوتے ہیں اور صرف باب نصر سے اس کے معنی ’’مونچھوں کو اتنا کٹواناکہ نیچے سے بَشَرَۃ (جلد) ظاہر ہوجائے‘‘ ہوتے ہیں (۲)بشَر یبشُر بُشْرًا (نصرسے) کے معنی ’’خوش ہونا‘‘ ہیں اور باب سَمِع سے مگر مصدر ’’بِشْرًا‘‘کے ساتھ بھی یہی معنی دیتا ہے (۳) بشَرہ بکذا بُشراً  بَشراً  بِشراً (نصر سے)سے متعدی استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’…کو…سے خوش کرنا‘‘اور (۴) ’’بشَر بشِر  بِشْرًا بکذا‘‘ (باب ضرب اور سمِع سے) بمعنی ’’…سے خوش ہونا‘‘ آتا ہے جب کہ (۵)بشُرَ بَشارَۃً (بابِ کرم سے) سے ’’خوبصورت ہونا‘‘ کے معنوں میں آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے (کسی باب سے اور کسی معنی کے لیے) فعل کا کوئی صیغہ کہیں استعمال  نہیں ہوا۔ اس مادہ سے زیادہ تر اَفعال باب تفعیل سے (۳۸ جگہ)، باب مفاعلہ سے (صرف دو صیغے) باب استفعال سے (چھ جگہ) اور باب ِاِفعال سے (صرف ایک صیغہ) آئے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر مشتقات ستر (۷۰)سے زیادہ مقامات پر آئے ہیں۔

        زیر مطالعہ لفظ ’’بَشِّرْ‘‘ اس مادہ(بشر) سے باب تفعیل کا فعلِ امر صیغہ واحد مذکر حاضر ہے ـــ اور اس باب سے فعل ’’بَشَّرَ…یُبَشِّرُ تبشرًا‘‘ کے معنی ہیں ’’…کو خوشخبری سنانا‘‘ ـــ ایسی خبر سنانا جس سے اس کے چہرے پر ’’بِشْر‘‘(خوشی کے آثار)ظاہر ہوں‘‘اس طرح یہ فعل متعدی استعمال ہوتا ہے اور اس کامفعول (جسے خوشخبری دی جائے)بغیر کسی صلہ کے (بنفسہٖ) منصوب آتا ہے۔ اور جس چیز کی خوشخبری دی جائے اس پر یا تو باء(بِ)داخل ہوتی ہے( شروع میں لگتی ہے) یا ’’اَنَّ‘‘ سے شروع ہونے والا ایک جملہ ہوتا ہے جو دراصل ’’بِاَنَّ‘‘ ہی ہوتا ہے۔ یعنی اس ’’اَنَّ‘‘ سے پہلے ایک (بِ) مقدر ہوتا ہے جیسے آیت زیر ِمطالعہ میں ہے۔ اور یہ استعمال بھی قرآن کریم میں صرف اسی ایک جگہ آیا ہے۔ ورنہ یہ دوسرا مفعول (جس کی خوشخبری دی جائے) ہر جگہ (قریباً ۳۶ جگہ) یا تو ’’بِ‘‘ کے ساتھ مذکور ہوا یا پھر مذکور ہی نہیں ہوا یعنی محذوف ہوتا ہے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں