اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

{اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالۡحَقِّ ۚ فَمَنِ اہۡتَدٰی فَلِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِوَکِیۡلٍ ﴿٪۴۱﴾} 

[اِنَّآ اَنْزَلْنَا [بیشک ہم نے اتارا] عَلَيْكَ الْكِتٰبَ [آپ ﷺ پر اس کتاب کو] لِلنَّاسِ بِالْحَـقِّ ۚ [لوگوں کے لئے حق کے ساتھ] فَمَنِ اهْتَدٰى [پس جس نے ہدایت پائی] فَلِنَفْسِهٖ  [تو (اس نے ہدایت پائی) اپنے لئے] وَمَنْ ضَلَّ [اور جو بھٹکا] فَاِنَّمَا [تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ] يَضِلُّ [وہ بھٹکتا ہے] عَلَيْهَا  [اپنے آپ پر] وَمَآ اَنْتَ عَلَيْهِمْ [اور آپ ﷺ ان پر] بِوَكِيْلٍ [کوئی نگران نہیں ہیں]۔

نوٹ۔1: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص چاہتاہو کہ سب انسانوں سے زیادہ طاقتور ہوجائے، اسے چاہیے کہ اللہ پر توکل کرے۔ اور جو شخص چاہتاہو کہ سب سے بڑھ کر غنی ہوجائے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے اس پر زیادہ بھروسہ رکھے بہ نسبت اس چیز کے جو اس کے اپنے ہاتھ میں ہے اور جو شخص چاہتاہو کہ سب سے زیادہ عزت والا ہوجائے، اسے چاہیے کہ اللہ عز وجل سے ڈرے۔ (تفہیم القرآن)"

{اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا ۚ فَیُمۡسِکُ الَّتِیۡ قَضٰی عَلَیۡہَا الۡمَوۡتَ وَ یُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰۤی اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۴۲﴾} 

[اَللّٰهُ يَتَوَفَّى [اللہ پورا پورا لے لیتا ہے] الْاَنْفُسَ [جانوں کو] حِيْنَ مَوْتِهَا [ان کی موت کے وقت] وَالَّتِيْ [اور اس کو (بھی) جو] لَمْ تَمُتْ [نہیں مری] فِيْ مَنَامِهَا  [اس کے سونے کے وقت میں] فَيُمْسِكُ الَّتِيْ [پھر وہ تھام لیتا ہے اس کو] قَضٰى عَلَيْهَا [فیصلہ کردیا جس پر] الْمَوْتَ [موت کا] وَيُرْسِلُ [اور وہ بھیج دیتا ہے] الْاُخْرٰٓى [دوسری کو] اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ [ایک مقررہ مدت کی طرف] اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ [بیشک اس میں یقینا نشانیاں ہیں] لِّــقَوْمٍ [ایسی قوم کے لئے جو] يَّتَفَكَّرُوْنَ [غور و فکر کرتے ہیں]۔

نوٹ۔1: قبض روح کے معنی اس کا تعلق بدن انسانی سے قطع کردینے کے ہیں۔ کبھی یہ ظاہراً وباطناً بالکل منقطع کردیا جاتاہے۔ اسی کا نام موت ہے اور کبھی صرف ظاہراً  منقطع کیا جاتاہے اور باطناً باقی رہتاہے، جس کا اثر یہ ہوتاہے کہ حس اور حرکتِ ارادی، جو ظاہری علامت زندگی ہے، وہ منقطع کردی جاتی اور باطناً تعلق روح کا جسم کے ساتھ باقی رہتاہے جس سے وہ سانس لیتاہے اور زندہ رہتاہے-

موت اور نیند کا یہ فرق حضرت علی کے قول کے مطابق ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ سونے کے وقت انسان کی روح اس کے بدن سے نکل جاتی ہے مگر ایک شعاع روح کی بدن میں رہتی ہے جس سے وہ زندہ رہتاہے۔ اور فرمایا کہ نیند کی حالت میں جو روح انسان کے بدن سے نکلتی تو بیداری کے وقت آنکھ جھپکنے سے بھی کم وقت میں بدن میں واپس آجاتی ہے۔ (معارف القرآن)

 اس میں غور کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ مثلا یہ کہ جس طرح خلق اور تدبیر تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہے، اسی طرح زندگی اور موت بھی تمام تر اسی کے اختیار میں ہے۔ اور یہ کہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا کوئی دور دراز والی بات نہیں ہ۔ ے اس دنیا میں ہر روز موت اور موت کے بعد اٹھنے کا ریہرسل ہر شخص کے ساتھ ہورہا ہے۔ بشرطیکہ آدمی اس کو دیکھنے کے لئے دیدئہ بینا رکھتا ہو۔ (تدبر قرآن)

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں