{وَ اذۡکُرۡ عَبۡدَنَاۤ اَیُّوۡبَ ۘ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الشَّیۡطٰنُ بِنُصۡبٍ وَّ عَذَابٍ ﴿ؕ۴۱﴾}
[وَاذْكُرْ [اور آپ ﷺ یاد کریں] عَبْدَنَآ [ہمارے بندے] اَيُّوْبَ [ایوب علیہ السلام کو] اِذْ نَادٰى [جب انھوں علیہ السلام نے پکارا] رَبَّهٗٓ [اپنے رب کو] اَنِّىْ [کہ میں ہوں کہ] مَسَّنِيَ [چھوا مجھ کو] الشَّيْطٰنُ [شیطان نے] بِنُصْبٍ [تکلیف سے] وَّعَذَابٍ [اور عذاب سے]
نوٹ۔1: قرآن کریم میں اتنا تو بتایا گیا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوگیا تھا لیکن اس مرض کی نوعیت نہیں بتائی گئی۔ احادیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ البتہ بعض آثارِ صحابہ ؓ میں اس کی تفصیل ملتی ہے لیکن وہ قابلِ اعتماد نہیں۔ (معارف القرآن)
نوٹ۔2: قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے بیماری کی حالت میں ناراض ہوکر کسی کو مارنے کی قسم کھائی تھی اور اس قسم میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اتنے کوڑے ماروں گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت عطا فرمائی تو ان کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ قسم پوری کرتاہوں تو ایک بےگناہ کو مارنا پڑے گا اور قسم توڑتا ہوں تو یہ بھی ایک گناہ ہے۔ اس مشکل سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح نکالا کہ انھیں حکم دیا کہ ایک جھاڑو لو جس میں اتنے ہی تنکے ہوں جتنے کوڑے مارنے کی تم نے قسم کھائی تھی اور اس جھاڑو سے اس شخص کو بس ایک ضرب لگادو تاکہ تمھاری قسم بھی پوری ہوجائے اور اسے ناروا تکلیف بھی نہ پہنچے۔ بعض لوگوں نے اس آیت کو حیلہء شرعی کے لئے دلیل قراردیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ و ہ ایک حیلہ ہی تھا جو حضرت ایوب علیہ السلام کو بتایا گیا تھا، لیکن وہ کسی فرض سے بچنے کے لئے نہیں بلکہ ایک برائی سے بچنے کے لئے بتایا گیا تھا۔ لہٰذ شریعت میں صرف وہی حیلے جائز ہیں جو آدمی کو اپنی ذات سے یا کسی دوسرے شخص سے گناہ اور برائی کو دفع کرنے کے لئے اختیار کئے جائیں۔ ورنہ حرام کو حلال کرنے یا فرائض کو ساقط کرنے یا نیکی سے بچنے کے لئے حیلہ سازی گناہ در گناہ ہے۔ (تفہیم القرآن)"
{اُرۡکُضۡ بِرِجۡلِکَ ۚ ہٰذَا مُغۡتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ ﴿۴۲﴾}
[اُرْكُضْ [آپ علیہ السلام رگڑیں] بِرِجْلِكَ [اپنے پیر سے] ھٰذَا [یہ] مُغْتَسَلٌۢ [نہانے کی جگہ ہے] بَارِدٌ [ٹھنڈا کرنے والی ہے] وَّشَرَابٌ [اور پینے کی چیز ہے]۔"
{وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اَہۡلَہٗ وَ مِثۡلَہُمۡ مَّعَہُمۡ رَحۡمَۃً مِّنَّا وَ ذِکۡرٰی لِاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۴۳﴾}
[وَوَهَبْنَا [اور ہم نے عطا کئے] لَهٗٓ اَهْلَهٗ [اس کو اس کے گھر والے] وَمِثْلَهُمْ [اور ان کے جیسے] مَّعَهُمْ [ان کے ساتھ] رَحْمَةً مِّنَّا [ہماری طرف سے رحمت ہوتے ہوئے] وَذِكْرٰى [اور یاد دہانی ہوتے ہوئے] لِاُولِي الْاَلْبَابِ [خالص عقل والوں کے لئے]۔"