اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

{اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ رِزۡقٌ مَّعۡلُوۡمٌ ﴿ۙ۴۱﴾} 

[اُولٰٓئِکَ [وہ لوگ ہیں] لَهُمْ [جن کے لئے] رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ [ایک معلوم رزق ہے]"

{فَوَاکِہُ ۚ وَ ہُمۡ مُّکۡرَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾} 

[فَوَاكِهُ  [جو پھل ہیں] وَهُمْ [اور وہ لوگ ہی] مُّكْـرَمُوْنَ [عزت دئیے ہوئے ہوں گے]

نوٹ۔1: لفظ ’’ فواکہ‘‘ کے ذریعہ قرآن نے جنت کے رزق کی خود تفسیر فرمادی ہے کہ وہ رزق میوں پر مشتمل ہوگا۔ عربی میں فاکھۃ  ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو بھوک کی ضرورت رفع کرنے کے لئے نہیں بلکہ لذت حاصل کرنے کے لئے کھائی جائے۔ اردو میں اس کا ترجمہ میوہ اس لئے کردیا جاتاہے کہ میوہ بھی لذت حاصل کرنے کے لئے کھایا جاتاہے۔ ورنہ در حقیقت فاکھۃ کا مفہوم میوے کے مفہوم سے زیادہ عام ہے۔ امام رازی نے اسی لفظ سے یہ نکتہ نکالا ہے کہ جنت میں جتنی غذائیں دی جائیں گی وہ سب لذت بخشنے کے لئے دی جائیں گی، بھوک کی حاجت رفع کرنے کے لئے نہیں۔ اس لئے کہ جنت میں انسان کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہوگی۔ وہاں اسے اپنی زندگی برقرار رکھنے کے لئے یا حفظان صحت کے لئے کسی بھی غذا کی ضرورت نہیں ہوگی اور جنت کی تمام نعمتوں کا مقصد لذت عطا کرنا ہوگا۔ (معارف القرآن)"

{فِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ ﴿ۙ۴۳﴾} 

[فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ [تروتازگی کے باغات میں]"

{عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیۡنَ ﴿۴۴﴾} 

[عَلٰي سُرُرٍ [تختوں پر] مُّتَـقٰبِلِيْنَ [ایک دوسرے کے آمنے سامنے]۔"

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں