اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ الصافات

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ 

{وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ۙ﴿۱﴾} 

[وَالصّٰٓفّٰتِ [قسم ہے قطار بنانے والیوں کی] صَفًّا [جیسا قطار بنانے کا حق ہے]

نوٹ۔1: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو قسمیں کھائی ہیں یہ تعظیم کے لئے نہیں بلکہ مقسم علیہ پر شہادت کے لئے ہیں۔ قسم کے اس مفہوم کی روشنی میں والصفات صفا  کا ترجمہ ’’ شاہد ہیں صفیں باندھے ہوئے حاضررہنے والے فرشتے‘‘ کیا جائے تو یہ قسم کے مفہوم کو بالکل ٹھیک ٹھیک اداکرنے والا ہوگا۔ آیات ایک تا تین میں فرشتوں کی تین صفات بیان ہوئی ہیں۔ ان صفات میں اسی طرح کی ترتیب ہے جس طرح کی ترتیب ہماری نمازوں میں ہوتی ہے۔ جس طرح ہم خدا کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر شیطان سے تعوذ کرتے ہیں، پھر اپنے رب کی حمد وتسبیح کرتے ہیں، اسی طرح ملائکہ بھی عرش الٰہی کے ارد گرد صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں، پھر شیاطین کو زجر کرتے ہیں، پھر اپنے رب کی حمد وتسبیح کرتے ہیں۔ (تدبر قرآن)

 مفسرین کی اکثریت کی رائے ہے کہ ان تینوں گروہوں سے مراد فرشتوں کے گروہ ہیں۔ اس میں قطار در قطار صف باندھنے کا اشارہ اس طرف ہے کہ تمام فرشتے جو نظام کائنات کی تدبیر کررہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور غلام ہیں اور اس کی اطاعت وبندگی میں صف بستہ ہیں۔ پھٹکارنے والوں سے مراد یہ ہے کہ ان ہی فرشتوں میں سے یک گروہ وہ بھی ہے جو نافرمانوں اور مجرموں کو پھٹکارتاہے۔ اور یہ پھٹکار صرف لفظی ہی نہیں ہوتی بلکہ انسانوں پر وہ حوادثِ طبعی اور آفات تاریخی کی شکل میں برستی ہے۔ کلام نصیحت سنانے والوں سے مراد یہ ہے کہ ان ہی میں وہ بھی ہیں جو امر حق کی طرف توجہ دلاتے ہیں، حوادث زمانہ کی شکل میں بھی، جن سے عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرتے ہیں اور ان تعلیمات کی صورت میں بھی جو ان کے ذریعہ سے انبیاء پر نازل ہوئیں اور ان الہامات کی صورت میں بھی جو ان کے واسطہ سے نیک انسانوں پر ہوتے ہیں۔ (تفہیم القرآن)

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں