سورۃ فاطر
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
{اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ جَاعِلِ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیۡۤ اَجۡنِحَۃٍ مَّثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ؕ یَزِیۡدُ فِی الۡخَلۡقِ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱﴾}
[اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ [تمام شکر وسپاس اللہ کے لئے ہے] فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [جو زمین اور آسمانوں کو وجود میں لانے والا ہے] جَاعِلِ الۡمَلٰٓئِکَۃِ [جو فرشتوں کو بنانے والا ہے] رُسُلًا [پیغامبر] اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ [جو پروں والے ہیں] مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ [دو دو اور تین تین اور چار چار] يَزِيْدُ [وہ زیادہ کرتا ہے] فِي الْخَلْقِ [پیدا کرنے میں] مَا یَشَآءُ [جو وہ چاہتا ہے] اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ [بیشک اللہ ہر چیز پر] قَدِيْرٌ [قدرت رکھنے والا ہے]۔
نوٹ۔1: ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ فرشتوں کے بازؤوں اور پروں کی کیفیت کیا ہے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لئے دوسرے الفاظ کے بجائے وہ لفظ استعمال فرمایا ہے جو انسانی زبان میں پرندوں کے بازؤوں کے لئے آتا ہے تو یہ تصور کیا جاسکتاہے کہ ہماری زبان کا یہی لفظ اصل کیفیت سے قریب تر ہے۔ دودو اور تین تین اور چار چار بازؤوں کے ذکر سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ مختلف فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف درجہ کی طاقتیں عطاء فرمائی ہیں اور جس سے جیسی خدمت لینی مطلوب ہوتی ہے اس کو ویسی ہی سرعت رفتار اور قوت کار سے آراستہ فرمایا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن)"
{مَا یَفۡتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنۡ رَّحۡمَۃٍ فَلَا مُمۡسِکَ لَہَا ۚ وَ مَا یُمۡسِکۡ ۙ فَلَا مُرۡسِلَ لَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۲﴾}
[مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ [جو کھول دے اللہ] لِلنَّاسِ [لوگوں کے لئے] مِنْ رَّحْمَةٍ [کسی رحمت میں سے] فَلَا مُمْسِكَ [تو کوئی بھی روکنے والا نہیں ہے] لَهَا ۚ [اس کو] وَمَا يُمْسِكْ ۙ [اور جو وہ روک لے] فَلَا مُرْسِلَ [تو کوئی بھی بھیجنے والا نہیں ہے] لَهٗ [اس کو] مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ [اس (روک) کے بعد] وَهُوَ الْعَزِيْزُ [اور وہی بالادست ہے] الْحَكِيْمُ [حکمت والا ہے]۔"