اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

{ٰٓیٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوا اللّٰہَ ذِکۡرًا کَثِیۡرًا﴿ۙ۴۱﴾} 

[يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا [اے لوگو جو ایمان لائے] اذْكُرُوا اللّٰهَ [تم لوگ یاد کرو اللہ کو] ذِكْرًا كَثِيْرًا [جیسے کثرت سے یاد کرنے کا حق ہے]۔

نوٹ۔1: آیت۔41۔42۔ میں مسلمانوں کو مخالفین کی محاذ آرائی کے مقابل میں ثابت قدم رہنے کی تدبیر بتائی ہے کہ ان کے غوغا سے بےپرواہ ہوکر تم زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کرو۔ یہ مر واضح رہے کہ شیطان اور اس کی ذریات کے مقابل میں مومن کی اصلی سپر اللہ تعالیٰ کی یاد ہی ہے۔ اس لئے ذکر تو سانس کی طرح ہر وقت مطلوب ہے۔ (تدبر القرآن)

 حضرت ابن عباسؓ     نے فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر ذکر اللہ کے سوا کوئی ایسا فرض عائد نہیں کیا جس کی کوئی حد مقرر نہ ہو۔ نماز پانچ وقت کی اور ہر نماز کی رکعات متعین ہیں۔ روزے ماہ رمضان کے مقرر ہیں۔ حج بھی خاص مقام پر اعمال مقررہ کرنے کا نام ہے۔ زکوٰۃ بھی سال میں ایک ہی مرتبہ فرض ہوتی ہے۔ مگر ذکر اللہ ایسی عبادت ہے کہ نہ اس کی کوئی حد یا تعداد متعین ہے، نہ کوئی خاص وقت یا زمانہ مقرر ہے، نہ اس کے لئے قیام یا نشست کی کوئی خاص ہئیت مقرر ہے، نہ اس کے لئے طاہر اور باوضو ہونا شرط ہے۔ ہر وقت اور ہر حال میں بکثرت ذکر اللہ کرنے کا حکم ہے۔ اس کے علاوہ دوسری عبادات میں بیماری اور مجبوری کے حالات میں عبادت میں کمی یا معافی کی رخصتیں بھی ہیں مگر ذکر اللہ کے لئے اللہ نے کوئی شرط نہیں رکھی اس لئے اس کو ترک کرنے کے لئے کوئی عذر نہیں سنا جائے گا۔ (معارف القرآن)"

{وَّ سَبِّحُوۡہُ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا ﴿۴۲﴾} 

[وَّسَبِّحُــوْهُ [اور تسبیح کرو اس کی] بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا [صبح و شام]۔"

{ہُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ کَانَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَحِیۡمًا ﴿۴۳﴾} 

[هُوَ الَّذِيْ [وہ، وہ ہے جو] يُصَلِّيْ [شفقت کرتا ہے] عَلَيْكُمْ [تم لوگوں پر] مَلٰٓئِکَتُہٗ  [اور اس کے فرشتے (دعا کرتے ہیں)] لِيُخْرِجَكُمْ [تاکہ وہ نکالے تم لوگوں کو] مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۭ [اندھیروں سے نور کی طرف] وَكَانَ [اور وہ ہے] بِالْمُؤْمِنِيْنَ [مومنوں پر] رَحِيْمًا [رحم کرنے والا]۔"

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں