{ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ بِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِی النَّاسِ لِیُذِیۡقَہُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ عَمِلُوۡا لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۴۱﴾}
[ظَهَرَ الْفَسَادُ [ظاہر ہوا فساد] فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [خشکی اور سمندر میں] بِمَا كَسَبَتْ [بسبب اس کے جو کمایا] اَيْدِي النَّاسِ [لوگوں کے ہاتھوں نے]لِيُذِيْقَهُمْ [تاکہ وہ (اللہ) چکھائے ان کو] بَعْضَ الَّذِيْ [اس کا کچھ جو] عَمِلُوْا [انھوں نے عمل کئے]لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ [شاید وہ لوگ لوٹ آئیں]۔
نوٹ۔1: آیت ۔ 41۔ کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو مصائب و آفات تم پر آتی ہیں ان کا حقیقی سبب تمھارے گناہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ دنیا میں نہ ان گناہوں کا پورا بدلہ دیا جاتا ہے اور نہ ہر گنا ہ پر آفت آتی ہے بلکہ بہت سے گناہوں کو تو معاف کردیا جاتا ہے۔ اور جو معاف نہیں ہوتے ان کا بھی پورا بدلہ دنیا میں نہیں دیا جاتا ، بلکہ تھوڑا سا مزہ چکھا یا جاتا ہے جیسا کہ اس آیت میں فرمایا لیذیقھم بعض الذی عملوا۔ اس کے علاوہ قرآن کریم نے جن آفات ومصائب کو گناہوں کا سبب قرار دیا ہے اس سے مراد وہ آفات و مصائب ہیں جو پوری دنیا پر یا پورے شہر پر عام ہو جائیں اور عام انسان یا جانور ان کے اثر سے نہ بچ سکیں۔ ایسی آفات و مصائب کا سبب عموماً لوگوں میں گناہوں کی کثرت ، خصوصاً اعلانیہ گناہ کرنا ہی ہوتا ہے۔ جبکہ انفرادی تکلیف و مصیبت میں یہ ضابطہ نہیں ہے بلکہ وہ کھبی کسی انسان کی آزمائش کرنے کے لئے بھی بھیجی جاتی ہیں۔ اور جب وہ اس آزمائش میں پورا اترتا ہے تو اس کے درجات آخرت میں بڑھ جاتے ہیں۔ یہ مصیبت درحقیقت اس کے لئے رحمت و نعمت ہوتی ہے۔ اس لئے انفرادی طور پر کسی کو مبتلائے مصیبت دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بہت گناہگار ہے۔ اسی طرح کسی کو عیش و آرام میں دیکھ کر یہ حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ بڑا نیک صالح بزرگ ہے۔ البتہ عام مصائب و آفات جیسے قحط، طوفان، وبائی امراض، اشیاء ضرورت کی گرانی، چیزوں کی برکت کا مٹ جانا وغیرہ، اس کا اکثر اور بڑا سبب لوگوں کا اعلانیہ گناہ اور سرکشی ہوتی ہے ۔
انفرادی مصائب و آفات نعمت و رحمت ہیں یا گناہوں کی کچھ سزا ہے، ان دونوں میں فرق کیسے پہچانا جائے۔ اس کی پہچان شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ نے یہ لکھی ہے کہ جو لوگ رفع و رجات یا کفارۂ سیئات مصائب میں مبتلا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے قلوب کو مطمئن کر دیتے ہیں اور وہ ان مصائب پر ایسے ہی راضی ہوتے ہیں جیسے بیمار کڑوی دوا یا آپریشن پر راضی ہوتا ہے۔ اور جو بطور سزا مبتلا کیے جاتے ہیں ان کی پریشانی اور جزع و فزع کی حد نہیں رہتی۔ مولانا تھانوی رحمۃ اللہ نے ایک پہچان یہ بتائی ہے کہ جس مصیبت کے ساتھ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور توبہ و استغفار کی رغبت زیادہ ہو جائے وہ علامت اس کی ہے کہ یہ قہر نہیں بلکہ عنایت ہے اور جس کو یہ صورت نہ بننے بلکہ جزع و فزع بڑھ جائے وہ علامت قہر الٰہی کی ہے۔ (معارف قرآن۔ ج 6۔ ص 752 تا 757 سے ماخوذ)