اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ العنکبوت

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ  

{الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾} 

الٓـمّٓ 

نوٹ۔1: مکہ میں جو شخص بھی اسلام قبول کرتا تھا اس پر مظالم کا ایک طوفان ٹوٹ پڑتا تھا۔ ان حالات نے اگرچہ راسخ الایمان صحابہ کے عزم و ثبات میں خوئی تزلزل پیدا نہ کیا تھا۔ لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اکثر ان پر بھی ایک شدید اضطراب کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ اس اضطرابی کیفیت کو ٹھنڈے صبر و تحمل میں تبدیل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو سمجھاتا ہے کہ ہمارے جو وعدے دنیا اور آخرت کی کامرانیوں کے لئے ہیں کوئی شخص صرف زبانی دعوائے ایمان کرکے ان کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ بلکہ ہر مدعی کو لازما آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے دعوے کی صلاحیت کا ثبوت دے اور یہ بات کھل جائے (یعنی ریکارڈ پر آجائے۔ مرتب) کہ ایمان کا جو دعوی تھا وہ سچا تھا یا جھوٹا۔ تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوا ہے۔ (تفہیم القرآن)"

{اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۲﴾} 

[اَحَسِبَ [کیا گمان کیا] النَّاسُ [لوگوں نے] اَنْ يُّتْرَكُوْٓا [کہ وہ چھوڑ دئیے جائیں گے] اَنْ [(اس لئے) کہ] يَّقُوْلُوْٓا [وہ کہتے ہیں] اٰمَنَّا [ہم ایمان لائے] وَهُمْ [اور وہ لوگ] لَا يُفْتَنُوْنَ [آزمائے نہ جائیں گے]۔"

{وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَلَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۳﴾} 

[وَلَقَدْ فَتَنَّا [اور بیشک ہم آزما چکے ہیں] الَّذِيْنَ [ان کو جو] مِنْ قَبْلِهِمْ [ان سے پہلے تھے] فَلَيَعْلَمَنَّ [تو لازما جان لے گا] اللّٰهُ [اللہ] الَّذِيْنَ [ان کو جنہوں نے] صَدَقُوْا [سچ کہا] وَلَيَعْلَمَنَّ [اور وہ لازما جان لے گا] الْكٰذِبِيْنَ [جھوٹ کہنے والوں کو]۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں