{فَخَرَجَ مِنۡہَا خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ ۫ قَالَ رَبِّ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿٪۲۱﴾}
[فَخَرَجَ [ تو رہ نکلے] مِنْهَا [ اس سے]خَآئِفًا [ ڈرنے والا ہوتے ہوئے] يَّتَرَقَّبُ [ چوکنا ہوتے ہوئے] قَالَ [ انھوں علیہ السلام نے کہا] رَبِّ [ اے میرے رب] نَجِّنِیۡ [ تو نجات دے مجھ کو] مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ [ ظلم کرنے والی قوم سے"]
{وَ لَمَّا تَوَجَّہَ تِلۡقَآءَ مَدۡیَنَ قَالَ عَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یَّہۡدِیَنِیۡ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ ﴿۲۲﴾}
[ وَلَمَّا: اور جب] تَوَجَّهَ تِلۡقَآءَ مَدْيَنَ : آپ نے مدین کا رخ کیا] [ قَالَ: آپ نے کہا] [ عَسٰى: امید ہے ] [ رَبِّيْٓ: میرا رب ] [ اَنْ يَّهْدِيَنِيْ سَوَآءَ السَّبِيْلِ : مجھے سیدھے راستے پر ڈال دے گا]"
{وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدۡیَنَ وَجَدَ عَلَیۡہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسۡقُوۡنَ ۬۫ وَ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمُ امۡرَاَتَیۡنِ تَذُوۡدٰنِ ۚ قَالَ مَا خَطۡبُکُمَا ؕ قَالَتَا لَا نَسۡقِیۡ حَتّٰی یُصۡدِرَ الرِّعَآءُ ٜ وَ اَبُوۡنَا شَیۡخٌ کَبِیۡرٌ ﴿۲۳﴾}
[وَلَمَّا [ اور جب] وَرَدَ [ وہ پہنچے] مَآءَ مَدْيَنَ [ مدین کے پانی پر] وَجَدَ [ تو انہوں علیہ السلام نے پایا]عَلَيْهِ [ اس پر] اُمَّةً [ ایک جماعت کو] مِّنَ النَّاسِ [ لوگوں میں سے] يَسْقُوْنَ [ جو پانی پلاتی ہے] وَوَجَدَ [ اور انہوں علیہ السلام نے پایا] مِنْ دُوْنِهِمُ [ ان لوگوں کے علاوہ] امْرَاَتَيْنِ [ دو عورتوں کو] تَذُوْدٰنِ [ روکتے ہوئے (اپنے مویشی کو)] قَالَ [ تو انہوں نے کہا] مَا خَطْبُكُمَا [ تم دونوں کا کیا حال (یعنی مسئلہ) ہے] قَالَتَا [ ان دونوں نے کہا] لَا نَسْقِيْ [ ہم پانی نہیں پلاتے] حَتّٰى [ یہاں تک کہ] يُصْدِرَ [ واپس لے جائیں] الرِّعَآءُ [ چرواہے] وَاَبُوْنَا [ اور ہمارے والد] شَيْخٌ كَبِيْرٌ [ بڑے بوڑھے ہیں]
ذود(ن) ذودا دفع کرنا۔ روکنا۔ زیر مطالعہ آیت۔23۔
نوٹ۔ ا: اس زمانہ میں مدین فرعون کی سلطنت سے باہر تھا اور لوگ مصری اثر و اقتدار سے بالکل آزاد تھے ۔ اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کا رخ کیا تھا کیو نکہ قریب ترین آزاد علاقہ وہی تھا ۔ لیکن وہاں جانے کے لئے ان کو گزرنا بہر حال مصر کے مقبوضہ علاقوں ہی سے تھا اور مصر کی پولیس اور فوجی چوکیوں سے بچ کر نکلنا تھا ۔ اسی لئے انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے ایسے راستے میں ڈال دے جس سے میں صحیح و سلامت مدین پہنچ جائوں ۔ (تفہیم القرآن )"