{قَالَ نَکِّرُوۡا لَہَا عَرۡشَہَا نَنۡظُرۡ اَتَہۡتَدِیۡۤ اَمۡ تَکُوۡنُ مِنَ الَّذِیۡنَ لَا یَہۡتَدُوۡنَ ﴿۴۱﴾}
[قَالَ [ (سلیمان علیہ السلام نے ) کہا] نَكِّرُوْا [ تم لوگ بھیس بدل دو] لَهَا [ اس (ملکہ) کے لئے] عَرْشَهَا [ اس کے تخت کا] نَنْظُرْ[ تو ہم دیکھیں گے] اَ [ آیا] تَهْتَدِيْٓ [ وہ سمجھتی ہے] اَمْ [ یا] تَكُوْنُ [ وہ ہوتی ہے]مِنَ الَّذِيْنَ[ ان لوگوں میں سے جو] لَا يَهْتَدُوْنَ [ سمجھ نہیں پاتے]"
{فَلَمَّا جَآءَتۡ قِیۡلَ اَہٰکَذَا عَرۡشُکِ ؕ قَالَتۡ کَاَنَّہٗ ہُوَ ۚ وَ اُوۡتِیۡنَا الۡعِلۡمَ مِنۡ قَبۡلِہَا وَ کُنَّا مُسۡلِمِیۡنَ ﴿۴۲﴾}
[فَلَمَّا [ پھر جب] جَآءَتۡ [ وہ آئی] قِيْلَ [ تو کہا گیا] اَ[ کیا] هٰكَذَا [ ایسا ہی ہے] عَرْشُكِ [ تیرا تخت] قَالَتْ [ اس (ملکہ) نے کہا] كَاَنَّهٗ [ جیسے کہ یہ] هُوَ [ وہ ہی ہے] وَاُوْتِيْنَا [ اور ہم کو دیا گیا] الْعِلْمَ [ علم ] مِنْ قَبْلِهَا [ اس (معجزہ) سے پہلے] وَكُنَّا [ اور ہم ہو چکے] مُسْلِمِيْنَ[ فرمانبردار]
(آیت۔42) من قبلہا میں ھا کی ضمیر کا مرجع محذوف ہے جو واقعۃ یا معجزۃ ہوسکتا ہے۔ اور اس سے مراد یہ معجزہ ہے کہ ملکہ اپنا تخت اپنے محل میں چھوڑ کر آئی تھی اور جب وہ سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچی تو اس کا تخت وہاں رکھا ہوا تھا۔"
{وَ صَدَّہَا مَا کَانَتۡ تَّعۡبُدُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہَا کَانَتۡ مِنۡ قَوۡمٍ کٰفِرِیۡنَ ﴿۴۳﴾}
[وَصَدَّهَا [ اور روک رکھا تھا اس (ملکہ) کو] مَا [ ان چیزوں نے جن کی] كَانَتْ تَّعْبُدُ [ وہ عبادت کیا کرتی تھی] مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ [ اللہ کے علاوہ ] اِنَّهَا [ بیشک وہ] كَانَتْ[ تھی] مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِيْنَ[ ایک کافر قوم میں سے]
(آیت۔43) اس آیت کے دو طرح ترجمے کئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ ما کانت تعبد میں ما کو صد کا فاعل مانا گیا ہے۔ اس طرح مطلب یہ ہوگا کہ جن چیزوں کی وہ پوجا کرتی تھی انھوں نے اس کو ایمان لانے سے روک دیا تھا۔ دوسرا یہ کہ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فارسی ترجمہ میں اور شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اردو ترجمہ میں صد کی ضمیر فاعلی ھو کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے مانا ہے۔ اس طرح مطلب یہ ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ کو ان چیزوں سے روک دیا جن کی وہ پوجا کرتی تھی۔ پروفیسر حافظ احمد یار صاحب مرحوم کا کہنا ہے کہ گرامر کے لحاظ سے دوسرے ترجمہ کی گنجائش نہیں نکلتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صد میں جس کو روکتے ہیں وہ مفعول بنفسہ آتا ہے۔ کہتے ہیں صدہ عن کذا۔ آیت میں اگر ہوتا وصدھا عما کانت تعبد تب یہ ترجمہ ٹھیک ہوتا لیکن عما کے بجائے صرف ما آیا ہے اس لئے پہلا ترجمہ بہتر ہے۔