{فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَۃُ قَالُوۡا لِفِرۡعَوۡنَ اَئِنَّ لَنَا لَاَجۡرًا اِنۡ کُنَّا نَحۡنُ الۡغٰلِبِیۡنَ ﴿۴۱﴾}
[فَلَمَّا [ پھر جب] جَآءَ [ آئے] السَّحَرَةُ [ جادوگر لوگ] قَالُوْا [ انھوں نے کہا] لِفِرْعَوْنَ [ فرعون سے] اَىِٕنَّ [ کیا بیشک (یعنی کیا واقعی)] لَنَا [ ہمارے لئے] لَاَجْرًا [ ضرور کوئی اجر ہے] اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ [ اگر ہم ہی غالب ہوں]"
{قَالَ نَعَمۡ وَ اِنَّکُمۡ اِذًا لَّمِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ ﴿۴۲﴾}
[قَالَ [ (فرعون نے) کہا] نَعَمْ [ ہاں] وَاِنَّكُمْ [ اور بیشک تم لوگ] اِذًا [ تب تو] لَّمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ [ ضرور ہم ہی غالب ہونے والے ہیں]"
{قَالَ لَہُمۡ مُّوۡسٰۤی اَلۡقُوۡا مَاۤ اَنۡتُمۡ مُّلۡقُوۡنَ ﴿۴۳﴾}
[ قَالَ: کہا [ لَهُمْ: ان سے [ مُّوْسٰٓي: موسیٰ نے][ اَلْقُوْا: تم لوگ ڈالو] مَآ: اس چیز کو][ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ: تم لوگ ڈالنے والے ہو]"
{فَاَلۡقَوۡا حِبَالَہُمۡ وَ عِصِیَّہُمۡ وَ قَالُوۡا بِعِزَّۃِ فِرۡعَوۡنَ اِنَّا لَنَحۡنُ الۡغٰلِبُوۡنَ ﴿۴۴﴾}
[ فَاَلْـقَوْا : تو انہوں نے ڈالیں ][ حِبَالَهُمْ : اپنی رسیاں ][ وَعِصِيَّهُمْ : اور اپنی لاٹھیاں ][ وَقَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ: اور انہوں نے کہا فرعون کی عزت کی قسم][ اِنَّا : بےشک ہم ][ لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ: ضرور ہم ہی غالب ہونے والے ہیں]
نوٹ۔1: بعزۃ فرعون۔ یہ کلمہ ان جادوگروں کی قسم ہے جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھی۔ افسوس کہ مسلمانوں میں بھی اب ایسی قسمیں رائج ہوگئی ہیں جو اس سے زیادہ شنیع اور قبیح ہیں مثلا بادشاہ کی قسم ، تیرے سر کی قسم ، میری داڑھی کی قسم، تیرے باپ کی قبر کی قسم وغیرہ۔ اس قسم کی قسمیں کھانا شرعا جائز نہیں ہے بلکہ ان کے متعلق یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خدا کے نام کی جھوٹی قسم کھانے میں جو گناہ عظیم ہے، ان ناموں کی سچی قسم بھی گناہ میں اس سے کم نہیں۔ (معارف القرآن)"