اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

{تَبٰرَکَ الَّذِیۡ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ جَعَلَ فِیۡہَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیۡرًا ﴿۶۱﴾} 

[تَبٰرَكَ [ بابرکت ہوا] الَّذِيْ [ وہ جس نے] جَعَلَ [ مقرر کیں]فِي السَّمَآءِ [ آسمان میں] بُرُوْجًا [ منزلیں] وَّجَعَلَ [ اور اس نے بنایا] فِيْهَا [ اس (آسمان) میں] سِرٰجًا [ ایک چراغ] وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا [ اور ایک چمکنے والا چاند]

س ر ج :(ن) سرجا بالوں کو گوندھ کر چوٹی بنانا۔

(افعال) اسراجا: بتی اور تیل سے کسی چیز کو روشن کرنا۔

 سراج: وہ چیز جو روشن کی جائے۔ چراغ۔ زیر مطالعہ آیت۔61۔

نوٹ۔1: آیات۔61۔62۔ میں پھر آفاق کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی کہ جہاں تک نشانیوں کا تعلق ہے ، ان کی کمی نہیں ہے۔ ضرورت کسی نئی نشانی کی نہیں بلکہ نشانیوں سے فائدہ اٹھانے کے ارادے اور جذبے کی ہے۔ جن کے اندر یہ جذبہ اور ارادہ نہیں پایا جاتا وہ ہر قسم کی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی اندھے ہی بنے رہتے ہیں۔ (تدبر قرآن)۔ ان ہی آیات کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل مضمون قلمبندر کیا ہے جو معارف القرآن کی جلد ششم کے صفحات ۔ 487 تا 497 پر محیط ہے۔ اس کے مضامین اتنے مربوط اور باہم اس طرح گتھے ہوئے ہیں کہ کوشش کے باوجود میں اس کا خلاصہ نہیں نکال سکتا۔ مثلا اجرام سماوی کی حقیقت اور ہیت کیا ہے۔ علم ہیئت کے قدیم و جدید نظریات اور قرآن کریم کے ارشادات۔ کائنات کے حقائق کو قرآن میں بیان کرنے کا مقصد۔ تفسیر قرآن میں فلسفی (یعنی سائنسی) نظریات کی موافقت اور مخالفت کا صحیح معیار۔ جدید تحقیقات نے انسانیت کو کیا بۃشا۔ وغیرہ۔ ہمارا مشورہ ہے کہ کسی لائبریری یا مسجد سے متعلقہ جلد حاصل کرکے ہر طالب علم اس مضمون کا مطالعہ ضرور کرے۔"

{وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ خِلۡفَۃً لِّمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّذَّکَّرَ اَوۡ اَرَادَ شُکُوۡرًا ﴿۶۲﴾} 

[وَهُوَ [ اور وہ] الَّذِيْ [ وہی ہے جس نے] جَعَلَ [ بنایا] الَّيْلَ [ رات کو] وَالنَّهَارَ [ اور دن کو] خِلْفَةً [ (ایک دوسرے کے) پیچھے پیچھے آنے والا ہوتے ہوئے] لِّمَنْ [ اس کے لئے جو] اَرَادَ [ ارادہ کرے] اَنْ [ کہ] يَّذَّكَّرَ [ وہ نصیحت حاصل کرے] اَوْ اَرَادَ [ یا ارادہ کرے] شُكُوْرًا [ شکر گزاری کا]

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں