{وَ اِنَّ لَکُمۡ فِی الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَۃً ؕ نُسۡقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہَا وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَنَافِعُ کَثِیۡرَۃٌ وَّ مِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾}
[وَاِنَّ لَكُمْ [ اور بیشک تمہارے لئے ]فِي الْاَنْعَامِ [ مویشیوں میں ] لَعِبْرَةً [ یقینا ایک عبرت ہے ] نُسْقِيْكُمْ [ ہم پینے کے لئے دیتے ہیں تم کو] مِّمَّا [ اس میں سے جو ]فِيْ بُطُوْنِهَا [ ان کے پیٹوں میں ہے] وَلَكُمْ[ اور تمہارے لئے] فِيْهَا [ ان میں ] مَنَافِعُ كَثِيْرَةٌ[ بہت سے (دوسرے ) فائدے ہیں ] وَّمِنْهَا [ اور ان میں سے ] تَاْكُلُوْنَ [ تم لوگ کھاتے (بھی ) ہو]"
{وَ عَلَیۡہَا وَ عَلَی الۡفُلۡکِ تُحۡمَلُوۡنَ ﴿٪۲۲﴾}
[وَعَلَيْهَا [ اور ان پر ] وَعَلَي الْفُلْكِ [ اور کشتیوں پر ] تُحْمَلُوْنَ [ تم لوگ سوار کئے جاتے ہو ]"
{وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَقَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۲۳﴾}
[وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا [ اور بیشک ہم بھیج چکے ہیں ] نُوْحًا [ نوح کو ] اِلٰى قَوْمِهٖ [ ان کی قوم کی طرف ] فَقَالَ [ تو انھوں نے کہا] يٰقَوْمِ [ اے میری قوم ] اعْبُدُوا [ تم لوگ بندگی کرو] اللّٰهَ [ اللہ کی ] مَا لَكُمْ [ نہیں ہے تمہارے لئے ] مِّنْ اِلٰهٍ [ کوئی بھی الہ ]غَيْرُهٗ [ اس کے علاوہ ] اَفَلَا تَتَّقُوْنَ [ تو کیا تم لوگ (اس کی ناراضگی سے ) نہیں بچوگے ]"
{فَقَالَ الۡمَلَؤُا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ۙ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتَفَضَّلَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَاَنۡزَلَ مَلٰٓئِکَۃً ۚۖ مَّا سَمِعۡنَا بِہٰذَا فِیۡۤ اٰبَآئِنَا الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ۚ۲۴﴾}
[فَقَالَ [ تو کہا ] الْمَلَؤُا الَّذِيْنَ [ ان کے سرداروں نے جنھوں نے ] كَفَرُوْا [ انکار کیا ] مِنْ قَوْمِهٖ [ ان کی قوم میں سے ]مَا ھٰذَآ [ نہیں ہیں یہ ] اِلَّا [ مگر ] بَشَرٌ [ ایک بشر ] مِّثْلُكُمْ [ تم لوگ جیسے ] يُرِيْدُ [ وہ ارادہ رکھتے ہیں ] اَنْ [ کہ ] يَّتَفَضَّلَ [ وہ فضیلت حاصل کریں] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ] وَلَوْ [ اور اگر ] شَآءَ [ چاہتا ] اللّٰهُ [ اللہ ]لَاَنْزَلَ [ تو اس نے اتارے ہوتے ] مَلٰٓئِکَۃً [ کچھ فرشتے ] مَّا سَمِعْنَا [ ہم نے نہیں سنا] بِھٰذَا [ اس کے بارے میں ]فِيْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِيْنَ [ اپنے پہلے آباؤاجداد (کے قصوں ) میں ]
نوٹ ۔1: تورات اور قرآن دونوں میں رسولوں کی تاریخ کا آغاز حضرت نوح علیہ السلام ہی سے ہوتا ہے ۔ یہاں جس مقصد سے یہ سرگزشت بیان ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا اس دنیا کو پیدا کرکے اس سے بےتعلق ہو بیٹھا ہے، وہ خدا کو بالکل غلط سمجھے ہیں ۔ خدا نے ہمیشہ اس کی مادی پرورش کا بھی انتظام فرمایا ہے اور اس کی روحانی واخلاقی اصلاح کے لئے اپنے رسول بھی بھیجے ہیں ۔ جن لوگوں نے ان رسولوں کی تکذیب کی خدا نے اتمام حجت کے بعد ان کو ہلاک کردیا اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کو نجات وفلاح بخشی ۔ اس دنیا کے ساتھ خدا کا یہ معاملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک ایسا دن بھی لائے گا جب وہ نیکوکاروں اور بدکاروں کے درمیان فیصلہ کرے گا ۔ (تدبرالقرآن)