اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

سورۃ المؤمنون

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ 

{قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾} 

[قَدْ اَفْلَحَ [ مراد پاگئے ہیں ] الْمُؤْمِنُوْنَ [ ایمان لانے والے ]"

{الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾} 

[الَّذِيْنَ [ وہ لوگ ] هُمْ [ جو ] فِيْ صَلَاتِهِمْ [ اپنی نماز میں ] خٰشِعُوْنَ[ عاجزی کرنے والے ہیں ]"

{وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾} 

[وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ ] هُمْ [ جو ] عَنِ اللَّغْوِ [ بےسود چیز سے ] مُعْرِضُوْنَ [ اعراض کرنے والے ہیں ]"

{وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾} 

[وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ ] هُمْ [ جو ] لِلزَّكٰوةِ [ زکوۃ کے لئے ] فٰعِلُوْنَ[ عمل کرنے والے ہیں ]

نوٹ۔1: قرآن کریم میں عام طور پر لفظ زکوۃ اصطلاحی معنی میں آتا ہے یعنی مال کا ایک خاص حصہ کچھ شرائط کے ساتھ صدقہ کرنے کو زکوۃ کہتے ہیں ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 4۔ میں اس لفظ کے اصطلاحی معنی لینے سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے جبکہ زکوۃ مدینہ میں فرض ہوئی ۔ اس کا جواب ابن کثیر اور دیگر مفسرین کی طرف سے یہ ہے کہ زکوۃ کی فرضیت مکہ ہی میں ہو چکی تھی ۔ سورہ مزمل بالاتفاق مکی ہے ۔ اس میں بھی آیت ، اقیموا الصلوۃ اتوالزکوۃ  کا ذکر موجود ہے مگر سرکاری طور پر اس کے وصول کرنے کا انتظام اور نصابات وغیرہ کی تفصیلات مدینہ جانے کے بعد جاری ہوئیں ، عام طور پر قرآن کریم میں جہاں زکوۃ کا ذکر آیا ہے تو اس کو فعل اتی ، یؤتی کے کسی صیغہ کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے لیکن یہاں عنوان بدل کر للزلوۃ فاعلون فرمانا اس کا قرینہ ہے کہ یہاں زکوۃ اپنے اصطلاحی معنی میں نہیں ہے ۔ اس بنیاد پر بعض مفسرین نے اس جگہ زکوۃ کا مضمون عام لغوی معنی میں اپنے نفس کو پاک کرنا قرار دیا ہے ۔ (معارف القرآن)

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں