سورۃ الانبیاء
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
{اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مُّعۡرِضُوۡنَ ۚ﴿۱﴾}
[ اِقْتَرَبَ: قریب ہوا] [ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لئے] [ حِسَابُهُمْ: ان کا حساب] [ وَ: اس حال میں کہ] [ هُمْ: وہ لوگ] [ فِيْ غَفْلَةٍ: غفلت میں] [ مُّعْرِضُوْنَ: اعراض کرنے والے ہیں]
ترکیب: (آیت۔2) ذِکْرٍ کی صفت ہونے کی وجہ مُحْدَثٍ حالت جر میں ہے۔ موصوف اور صفت کے درمیان میں متعلق فعل مِنْ رَبِّھِمْ آ گیا ہے۔ (آیت۔3)۔ لَاھِیَۃً حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے اور یہ اسم الفاعل ہے جس نے فعل کا کام کیا ہے۔ قُلُوْبُھُمْ اس کا فاعل ہونے کی وجہ سے حالت رفع میں ہے۔ اَسَرُّوْا جمع کا صیغہ ہے اس لئے اَلَّذِیْنَ کو اس کا فاعل نہیں مان سکتے کیونکہ ایسی صورت میں فعل واحد آنا چاہئے۔ اس لئے اس کی مختلف توجیہات کی گئی ہیں۔ حافظ احمد یار صاحب مرحوم کی ترجیح یہ ہے کہ اَلَّذِیْنَ کو اَسَرُّوْا کی ضمیر فاعلی ھُمْ کا بدل مانا جائے۔"
{مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ ذِکۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ مُّحۡدَثٍ اِلَّا اسۡتَمَعُوۡہُ وَ ہُمۡ یَلۡعَبُوۡنَ ۙ﴿۲﴾}
[ مَا يَاْتِيْهِمْ: نہیں پہنچتی ان کے پاس [ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِهِمْ مُّحْدَثٍ: کوئی بھی نئی نصیحت ان کے رب (کی طرف) سے] [ اِلَّا: مگر] [ اسۡتَمَعُوۡہُ : وہ سنتے ہیں اس کو] [ وَ: اس حال میں کہ] [ هُمْ: وہ لوگ ] [ يَلْعَبُوْنَ: کھیلتے ہوتے ہیں]"
{لَاہِیَۃً قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجۡوَی ٭ۖ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ٭ۖ ہَلۡ ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ۚ اَفَتَاۡتُوۡنَ السِّحۡرَ وَ اَنۡتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۳﴾}
[ لَاهِيَةً: غافل ہونے والے ہوتے ہوئے] [ قُلُوْبُهُمْ: ان کے دل] [ وَاَسَرُّوا: اور انھوں نے چھپایا] [ النَّجۡوَی : سرگوشی کو] [ الَّذِينَ: ان لوگوں نے جنھوں نے] [ ظَلَمُوْا: ظلم کیا] [ هَلْ ھٰذَآ: (سرگوشی کرتے ہیں کہ) یہ کیا ہیں] [ اِلَّا: سوائے اس کے کہ] [ بَشَرٌ: ایک بشر] [ مِّثْلُكُمْ: تم لوگوں جیسے] [ اَفَتَاْتُوْنَ: تو کیا تم لوگ آتے ہو] [ السِّحْرَ: جادو کے پاس [ وَ: اس حال میں کہ] [ اَنۡتُمۡ : تم لوگ] [ تُبْصِرُوْنَ: دیکھتے ہوتے ہو"